کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 173
پانچویں آیت: ﴿کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ﴾(الانعام: ۵۴)’’تمھارے رب نے رحم کرنا اپنے آپ پر لازم کر لیا ہے ۔‘‘ [کَتَبَ] … ’’أوجب‘‘ کے معنی میں ہے۔ یعنی اللہ نے اپنے فضل وکرم اور جو دوسخاء کی وجہ سے اپنی ذات پر رحمت کو واجب قرار دے رکھا ہے اور اپنی رحمت کو اپنے غضب پر مقدم کیا ہے۔ ﴿ وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَہْرِہَا مِنْ دَآبَّۃٍ﴾ (فاطر:۴۵) ’’اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے اعمال کی وجہ سے پکڑنے لگتا تو زمین کی پشت پر کسی بھی چلنے پھرنے والی چیز کو نہ چھوڑتا۔‘‘ اس کے حلم اور رحمت کی وجہ سے مخلوق طے شدہ وقت تک باقی رہے گی۔ یہ ارشاد باری بھی اس کی رحمت کے زمرے میں آتا ہے: ﴿اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْٓئً بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاِ نَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo﴾ (الانعام: ۵۴) ’’بات یوں ہے کہ تم میں سے جس نے بھی نہ جانتے ہوئے کوئی برا عمل کیا۔ پھر اس نے اس کے بعد توبہ کرلی اور اصلاح کرلی تو بلا شک وہ معاف فرمانے والا بڑے رحم والا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ گناہ کے بعد توبہ کرنے والے اور اصلاح کرنے والے کے گناہ بھی معاف کرتا ہے اور اس پر رحم بھی فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کا اختتام ان الفاظ پر اس لیے فرمایا ہے تاکہ بندوں کو بتایا جائے کہ اس کے سامنے توبہ کرنے والے مغفرت اور رحمت دونوں کے حصول میں کامیاب رہتے ہیں ۔ وگرنہ عدل کا تقاضا تو یہ تھا کہ اللہ اسے اس کے گناہ کی سزا دیتا اور نیک اعمال کی جزا دیتا۔ اگر کسی نے پچاس دن گناہ کیے ہوں اور پھر پچاس دن توبہ کرنے اور اصلاح کرنے میں گزارے ہوں تو عدل کا تقاضا تو یہ ہے کہ اسے پچاس دنوں کی سزا دی جائے اور پچاس دنوں کے ثواب سے نوازا جائے مگر چونکہ اللہ نے اپنی ذات پر رحمت واجب قرار دے رکھی ہے لہٰذا پچاس دنوں کے گناہ لمحہ بھر کی توبہ سے ختم ہو جاتے ہیں ۔ اور اس پر مزید یہ کہ: ﴿فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنَاتٍ﴾ (الفرقان: ۷۰) ’’بس یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ ان کی برائیوں کو اچھائیوں میں بدل دے گا۔‘‘ آیت میں اللہ تعالیٰ کی مندرجہ ذیل صفات کا ذکر ہے: ربوبیت، ایجاب اور رحمت۔ چھٹی آیت: ﴿وَ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾ (یونس: ۱۰۷) ’’اور وہ معاف کرنے والا اور بڑے رحم والا ہے۔‘‘ اللہ ہی غفور ورحیم ہے، اللہ تعالیٰ نے ان دونوں اسموں کو ایک ساتھ بیان کیا، اس لیے کہ مغفرت فرمانے سے گناہوں کی سزا ساقط ہو جاتی ہے اور رحمت سے مطلوب حاصل ہو جاتا ہے۔ انسان کو مغفرت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور رحمت کی بھی۔ وہ مغفرت ملنے کی صورت میں اپنے گناہوں سے نجات پا لیتا ہے اور رحمت کی وجہ سے حصول مطلوب کی سعادت سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ [الْغَفُوْرُ]… مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ غفر سے ماخوذ ہے، جو کہ ’’بچاؤ کے ساتھ پردہ‘‘ سے عبارت ہے، اور غفر،