کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 172
اجر پاتا ہے، اور خوشی ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتا ہے۔ وہ اس حالت میں بھی خیریت سے ہوتا ہے اور اس حالت میں بھی۔ وہ بڑے اطمینان اور شرح صدر کے ساتھ رب تعالیٰ کے فیصلوں کو تسلیم کرتا ہے۔ نہ تکلیف آنے پر بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے اور نہ راحت ملنے پر نخوت وغرور میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس کی ساری زندگی توازن، استقامت اور اعتدال سے عبارت ہوتی ہے۔ اس رحمت اور اس رحمت میں فرق نمایاں ہے۔ مگر برادران اسلام! بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم میں سے ہزاروں لوگ کفار کے قدم بقدم چلنا چاہتے ہیں ، انہوں نے دنیا کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ اگر کچھ مل گیا تو راضی اور نہ ملا تو ناراض، ان لوگوں کو دنیوی آسائشیں جتنی بھی میسر آجائیں دنیا کی لذت کا ذائقہ کبھی بھی چکھ نہ پائیں گے، اس ذائقہ سے وہی لوگ آشنا ہوں گے جن کا اللہ پر ایمان ہوگا اور اعمال صالحہ بجا لائیں گے، اسی لیے علماء سلف میں سے کسی کا قول ہے: اللہ کی قسم! اگر بادشاہوں اور شہزادوں کو ہماری مسرتوں اور راحتوں کا علم ہو جائے تو وہ انہیں حاصل کرنے کے لیے ہمارے ساتھ تلواروں سے لڑیں ۔ وہ ان مسرتوں سے اس لیے لطف اندوز نہیں ہو سکتے کہ ان کے اور ان راحتوں کے درمیان ان کا فسوق وعصیان اور دنیا کی طرف میلان حائل ہے، دنیا ہی ان کا مقصد وحید ہے اور یہی ان کا مبلغ علم ہے۔ [رَحْمَۃً وَّعِلْمًا]… (رحمۃً) یہ تمییز محول عن الفاعل ہے۔ اور اسی طرح (علما) بھی اصل عبارت یوں ہے: ’’ربنا وسعت رحمتک وعلمک کل شيء‘‘، ’’ہمارے پروردگار! تیری رحمت اور علم نے ہر چیز کو اپنی وسعت میں لے رکھا ہے۔‘‘ آیت میں ان صفات باری تعالیٰ کا ذکر ہے: ربوبیت، عموم رحمت اور علم۔ تیسری آیت: ﴿وَ کَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا﴾ (الاحزاب: ۴۳) ’’اور وہ مومنوں پر بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ [بِالْمُؤْمِنِیْنَ]… یہ (رحیمًا) کے ساتھ متعلق ہے۔ معمول کو مقدم لانا حصر پر دلالت کرتا ہے۔ اس طرح آیت کا معنی ہوگا: وہ مومنوں پر رحم کرتا ہے دوسروں پر نہیں ۔ اگر اس آیت کا معنی یہ ہے تو پھر اس میں اور اس سے ماقبل کی آیت: ﴿رَبَّنَآ وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَحْمَۃً وَّعِلْمًا﴾ (الغافر: ۷) میں تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس رحمت کا اس آیت میں ذکر ہے، وہ اس رحمت سے مختلف ہے جس کا ماقبل کی آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ رحمت خاصہ ہے جو کہ آخرت کی رحمت کے ساتھ متصل ہے اور جسے کفار حاصل نہیں کر سکیں گے، بخلاف پہلی رحمت کے۔ دونوں آیتوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ رحمت کفار پر بھی ہوتی ہے اور مومنین پر بھی، مگر رحمت خاصہ اور رحمت عامہ میں بہت فرق ہے۔ آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کا ذکر ہے۔اور یہ سلوکی اعتبار سے ایمان کی ترغیب دلاتی ہے۔ چوتھی آیت: ﴿کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ﴾ (الانعام: ۵۴) ’’تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحمت کو ضروری قرار دے دیا ہے۔‘‘