کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 171
اللہ تعالیٰ حاملین عرش فرشتوں کے بارے میں فرماتے ہیں :
﴿الَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِo﴾ (الغافر: ۷)
’’وہ جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے اردگرد ہیں وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں ، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے بخشش کی دعائیں کرتے ہیں ، ہمارے پروردگار! تو اپنی رحمت اور علم سے ہر ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اس لیے تو ان لوگوں کو معاف کر دے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے سیدھے راستے کی اتباع کی اور انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔‘‘
ایمان کس قدر عظیم ہے اور اس کا فائدہ کتنا عظیم ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عرش عظیم کو اٹھانے والے فرشتے مومنین کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کر رہے ہیں ۔
[رَبَّنَآ وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَحْمَۃً وَّعِلْمًا]… یہ فرمان باری تعالیٰ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی رحمت کی ہر چیز تک رسائی ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو حکم میں ایک ساتھ بیان کیا ہے۔
یہ رحمت عامہ ہے جو کہ تمام مخلوقات پر مشتمل ہے یہاں تک کہ کفار بھی اس سے مستفید ہو رہے ہیں ، اور یہ اس لیے کہ رب تعالیٰ نے اس رحمت کو علم کے ساتھ ملا کر بیان کیا ہے، جس چیز تک اللہ تعالیٰ کے علم کی رسائی ہے اور اس کی رسائی ہر ایک چیز تک ہے۔ اس تک اس کی رحمت کی بھی رسائی ہے، اسے کافروں کا علم بھی ہے اور وہ ان پر رحمت بھی فرماتا ہے۔
مگر کفار پر اللہ تعالیٰ کی رحمت بدنی اور دنیوی ہے جو اس رحمت سے کہیں کم اور محدود ہے جو وہ اہل ایمان پر فرماتا ہے، کافر کو رزق دینے والا بھی اللہ ہے، جو اسے کھلاتا، پلاتا، رہائش فراہم کرتا اور اس کا گھر آباد کرتا ہے۔
رہے مومنین، تو ان کی رحمت اس رحمت سے زیادہ خاص بھی ہے اور زیادہ عظیم بھی، اس لیے کہ وہ ایمانی، دینی اور دنیاوی رحمت ہے، یہی وجہ ہے کہ کافر کے مقابلے میں مومن کی حالت زیادہ اچھی ہوتی ہے، یہاں تک کہ دنیوی امور میں بھی وہ اس سے کہیں بہتر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً﴾ (النحل: ۹۷)
’’جو شخص بھی نیک عمل کرے وہ مرد ہو یا عورت اس حال میں کہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ آرام دہ زندگی میں زندہ رکھیں گے۔‘‘
جبکہ یہ پاکیزہ زندگی کافر کے لیے مفقود ہے، ان کی زندگی جانوروں جیسی ہے، پیٹ بھر کر کھا لیا تولید کر دی، بھوکا رہا تو بیٹھ کر چلانے لگا۔ کفار کا بھی یہی حال ہے، آسودہ حال ہوئے تو اکڑنے لگے، بدحال ہوئے تو چیخنے چلانے لگے اور دنیا میں رہ کر اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ اس کے برعکس مومن کی یہ حالت ہوتی ہے کہ مصیبت آنے پر صبر کرتا ہے اور اللہ سے اس کا