کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 168
امر کی متقاضی ہے کہ ہم اللہ سے ڈریں نہ کہ اس کی مخلوق سے۔ وہ اس طرح کہ اگر ہمارے پاس کوئی قابل احترام شخص موجود ہو تو معاصی کو ترک کر دیں اور اس کی عدم موجودگی میں ان کا ارتکاب کرنے لگیں ، تقویٰ یہ ہے کہ ہم اللہ سے ڈریں ، اور اس حوالے سے کسی کے وجود اور عدم وجود کو کوئی اہمیت نہ دیں ، اگر ہم اپنے اور اللہ کے مابین امور کی اصلاح کریں گے تو وہ ہمارے اور لوگوں کے مابین امور کی خود اصلاح فرما دے گا، آپ اس چیز کو اہمیت دیں جو آپ کے اور آپ کے رب درمیان ہے اور اس کے علاوہ کسی چیز کو کوئی اہمیت نہ دیں ۔
﴿اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ (الحج: ۳۸) ’’یقینا اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دفاع کرتا ہے۔‘‘
آپ شریعت کے تقاضے پورے کریں گے تو اس کا انجام آپ کے حق میں ہوگا۔
رابعاً: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ﴾ (البقرۃ: ۲۲۲) ’’یقینا اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے بہت توبہ کرنے والوں سے۔‘‘
یہ آیہ کریمہ ہم پر کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنے اور قلب وقالب کے ساتھ اس کی طرف بکثرت رجوع کرنے کو واجب قرار دیتی ہے۔ انسان کا صرف زبان سے یہ کہہ دینا کہ میں اللہ کے حضور توبہ کرتا ہوں ، نفع بخش ثابت نہیں ہوتا، بلکہ حضور قلب کے ساتھ اپنے گناہوں کو یاد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور ان گناہوں سے توبہ کرنا ضروری ہوتا ہے، یقینا اس طرح آپ اللہ کی محبت کے حصول میں کامیاب ہوں گے۔
﴿وَ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ﴾ (البقرۃ: ۲۲۲) ’’اور وہ بہت پاک رہنے والوں سے بھی محبت کرتا ہے۔‘‘ کپڑوں کو نجاست سے پاک کرنے کے لیے انہیں دھوتے وقت آپ کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اللہ آپ سے محبت کرتا ہے، یہی احساس وضو کرتے وقت اور غسل کرتے وقت بھی ہونا چاہیے، اس لیے کہ اللہ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
مگر واللہ! ہم ان معانی سے غافل ہیں ، ہم نماز ادا کرنے کے لیے وضو بھی کرتے ہیں ، غسل جنابت کا فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں ، مگر یہ بات بھولے رہتے ہیں کہ یہ اعمال اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ اور اس کی محبت کے حصول کا سبب ہیں ، اگر پیشاب کے ایک قطرے سے پاک کرنے کے لیے کپڑوں کو دھوتے وقت یہ بات ہمارے ذہن میں ہو کہ مجھے اللہ کی محبت حاصل ہوگی تو ہم بہت ساری بھلائیاں سمیٹ سکتے ہیں ، مگر ہم غفلت میں پڑے ہیں ۔
خامساً: ارشاد ربانی: ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ﴾(اٰل عمران: ۳۱)
’’فرما دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘ بھی اس بات کو واجب قرار دیتا ہے کہ ہم آخری حد تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے حریص رہیں آپ کے راستے پر اس طرح گامزن ہوں کہ نہ اس سے باہر نکلیں ، نہ اس میں کمی بیشی کریں اور نہ کسی کوتاہی کے مرتکب ہوں ، ہمارا یہ شعور ہمیں بدعات وخرافات سے محفوظ رکھے گا، اور دین میں اضافہ کرنے یا غلو اختیار کرنے سے بچائے رکھے گا۔ اگر ہمیں ان امور کا شعور حاصل ہو جائے تو پھر دیکھنا کہ ہمارے اخلاق وآداب اور سلوک وعبادات کیا رنگ اختیار کرتے ہیں ۔