کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 163
الغرض! وہ مخالفین اسلام کے خلاف برقسم کے جہاد کے لیے تیار رہیں گے۔
[وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ]… یعنی وہ لوگوں کی طرف سے کسی ملامت و تنقید سے خائف نہیں ہوتے، وہ حق وصداقت پر مبنی بات ہی کرتے ہیں چاہے اس زد میں خود ہی کیوں نہ آجائیں ۔
البتہ یہ بات ضرور ہے کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کرتے وقت حکمت کو بروئے کار لاتے ہوئے موقعہ ومحل کی نزاکتوں کو ضرور پیش نظر رکھتے ہیں ، اگر حالات نرمی ولیونت کے متقاضی ہوں تو نرمی پر مبنی رویہ اختیار کرتے ہیں ، اور اگر دعوت بعض امور میں پیچھے ہٹ جانے کو ضروری قرار دے تو اس پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ اور یہ اس لیے کہ وہ ایک مخصوص مقصد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں اور وسیلہ احوال وظروف کے تقاضوں کے مطابق ہی اختیار کیا جاتا ہے۔پھر ارشاد ہوا:
﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ (المائدۃ: ۵۴)
’’یہ اللہ کا فضل ہے وہ اسے جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ وسعت والا بڑے علم والا ہے۔‘‘
اس آیت میں اسماء وصفات تو وہی ہیں جو گزشتہ آیات میں گزر چکے ہیں ، البتہ اس میں اس کے محبوب ہونے کا اضافہ ہے۔
ساتویں آیت: ﴿اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌo﴾ (الصف: ۴)
’’یقینا اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کے راستے میں ایسی صف بنا کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔‘‘
یہ سورئہ صف کی آیت ہے جو درحقیقت سورئہ جہاد ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کا آغاز اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کی تعریف وتوصیف سے کیا اور اس کے آخر میں جہاد کی دعوت دی اور درمیان میں یہ بتایا کہ وہ دین اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ عطا فرمائے گا اگرچہ مشرکین اسے ناپسند کریں ۔
[یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا]… وہ اللہ کی راہ میں صف بندی کر کے لڑتے ہیں ، ایک دوسرے سے آگے پیچھے نہیں ہوتے، اور اس میں کوئی خلل نہیں آنے دیتے۔
نماز جہاد اصغر ہے، اس میں ایک ایسا قائد ہوتا ہے، جس کی اتباع واجب ہوتی ہے، اگر آپ اس کی اتباع نہیں کریں گے تو آپ کی نماز باطل ہو جائے گی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا امام سے قبل سر اٹھانے والا اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ اس کا سر گدھے کے سر جیسا بنا دے یا اس کی صورت کو گدھے کی صورت میں تبدیل کر دے۔‘‘[1] نماز میں صف بندی، جہاد میں صف بندی کی نظیر ہے، رسول اکرم علیہ الصلاۃ والسلام کا معمول تھا کہ آپ جس طرح نماز میں لوگوں کی صف بندی فرماتے میدان جہاد میں بھی اسی طرح فرماتے: ﴿کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ﴾ ’’گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔‘‘ اور دیوار جیسا کہ رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: اس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط بناتا ہے۔‘‘[2]
اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں سے اپنی محبت کو ان کے اعمال کے ساتھ معلق فرمایا ہے، وہ چند صفات کے حامل ہیں :
اولاً: وہ قتال کرتے ہیں ، دون ہمتی، سستی وکاہلی اور جمود کا شکار نہیں ہوتے یہ ایسی چیزیں ہیں جو دین کو بھی کمزور کرتی ہیں اور
[1] صحیح بخاری:۶۹۱۔ صحیح مسلم :۴۲۷۔
[2] صحیح بخاری: ۶۰۲۶۔ صحیح مسلم: ۲۵۸۵۔