کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 161
آفتاب سے قبل توبہ کرنا، اس کے بعد کی توبہ قابل قبول نہ ہوگی۔
التَّواب: کثیر التوبہ۔
کثرت توبہ کثرت گناہ کو مستلزم ہے، اس سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ انسان کے گناہ جس قدر بھی زیادہ ہوں وہ جب بھی کسی گناہ سے توبہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرے گا، تو جو شخص ایک ہی گناہ کرے اور پھر اس سے توبہ کرے تو وہ بطریق اولیٰ اللہ تعالیٰ کی محبت کا حق دار ہوگا۔
[وَ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ] … یعنی جو جملہ آحداث سے طہارت حاصل کرتے ہیں ، جسمانی نجاستوں اور ہر اس چیز سے طہارت حاصل کرتے ہیں ، جس سے طہارت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ظاہری اور باطنی دونوں طہارتوں کو جمع کر دیا ہے۔ التَّوَّابِیْنَ میں باطنی طہارت کی طرف اور الْمُتَطَہِّرِیْنَ میں ظاہری طہارت کی طرف اشارہ ہے۔
پانچویں آیت: ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ﴾ (اٰل عمران: ۳۱) ’’کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو پھر میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔‘‘
علمائے سلف اس آیت کو آیت امتحان کے نام سے موسوم کرتے ہیں ، اس لیے کہ جب کچھ لوگوں نے اللہ کے ساتھ محبت کرنے کا دعویٰ کیا تو اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ ان سے یہ فرمائیں : ﴿اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ﴾ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے کا دعویٰ کرنے والے ہر شخص سے یہی کہا جائے گا کہ اگر تو اپنے اس دعویٰ میں سچا ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کر، اگر کوئی بدعتی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں ، تو اس سے کہا جائے گا کہ تو اس دعویٰ میں جھوٹا ہے؟ اس لیے کہ اگر تیری محبت سچی ہوتی تو رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی اتباع کرتا، اور آپ کی شریعت میں اپنی طرف سے کوئی چیز داخل کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے بڑھنے کی جسارت ہرگز نہ کرنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کر کے ہی اللہ تعالیٰ سے محبت کی جا سکتی ہے۔
پھر جب کوئی شخص اللہ سے محبت کرتا اور اس کی عبادت کافریضہ سرانجام دیتا ہے تو اللہ اس سے محبت کرنے لگتا، اور اسے اس کے عمل سے زیادہ اجر وثواب سے نوازتا ہے۔ ایک حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا گیا: ’’جو شخص مجھے اپنے دل میں یاد کرے گا میں اسے اپنے دل میں یاد کروں گا، اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرے گا تو میں اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کروں گا، اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک ہوگا تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہو جاؤں گا۔ اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوگا تو میں دو ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر اس کے قریب ہو جاؤں گا اور اگر وہ میرے پاس چلتا ہوا آئے گاتو میں اس کے پاس دوڑتا ہوا جاؤں گا۔[1]
تو گویا اللہ عزوجل کی عطاء اور اس کا اجر وثواب انسان کے عمل سے کہیں زیادہ ہے۔آیت میں اللہ تعالیٰ کے وہی اسماء وصفات ہیں جو گزشتہ آیت میں بتلائے جا چکے ہیں۔
[1] صحیح بخاری: ۷۴۰۵۔ صحیح مسلم: ۲۶۷۵ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ۔