کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 158
آپ لوگوں کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ کریں جس قسم کا برتاؤ آپ اپنے لیے پسند کرتے ہیں ، مثلاً: جب آپ کسی شخص کے ساتھ کوئی معاملہ کرنا چاہتے ہیں تو اس سے پہلے آپ یہ سوچ لیں کہ اگر کوئی شخص اس قسم کا معاملہ میرے ساتھ کرے تو میں اسے پسند کروں گا یا نہیں ؟ اگر تو آپ اسے اپنے لیے پسند کرتے ہیں تو پھر اس کے ساتھ بھی ایسا کیجئے بصورت دیگر ایسا کرنے کے باز رہیں ۔
اپنی اولاد کو عطیہ دیتے وقت عدل کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو، اپنی اولاد میں عدل سے کام لیا کرو۔‘‘[1]
میت کے ورثاء میں اس کا ترکہ تقسیم کرتے وقت عدل سے کام لینا بھی اسی میں داخل ہے، ہر وارث کو اس کا شرعی حق دیا جائے گا، اور ان میں سے کسی کے لیے کسی بھی چیز کی وصیت نہیں کی جائے گی۔
بیویوں کے درمیان عدل کرنا بھی اس میں شامل ہے، ان میں ہر چیز کو برابر برابر تقسیم کیا جائے گا۔اپنی ذات کے ساتھ عدل کرنا بھی اسی قبیل سے ہے، آپ اسے انہی اعمال کا مکلف ٹھہرائیں جن کی ادائیگی اس کے بس میں ہو۔
ہم اس جگہ آپ کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ بعض لوگ عدل کی جگہ مساوات کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، جو کہ غلط ہے اور غلط اس لیے کہ مساوات دو چیزوں میں برابری کا تقاضا کرتی ہے، جبکہ حکمت ایزدی ان میں فرق ملحوظ رکھنے کی متقاضی ہوتی ہے۔
چونکہ لوگوں میں مساوات کا ظالمانہ پروپیگنڈہ کرنے والے مرد وزن میں کسی قسم کا فرق ملحوظ نہیں رکھتے، لہٰذا انہوں نے اسی بات کے پیش نظر مردوں اور عورتوں کو ایک ساتھ کھڑا کر دیا، کمیونسٹوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ حاکم اور محکوم کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں ہے، کسی کا کسی پر غلبہ نہیں ہو سکتا، حتیٰ کہ باپ کو اس کی اپنی اولاد پر بھی کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔
مگر عدل ہر ایک کو اس کا جائز حق دینے سے عبارت ہے، اس اصطلاح کے استعمال سے مرد وزن میں مرد وزن میں مساوات کا خطرناک نظریہ بھی اپنی موت آپ مر جائے گا، اور عبارت بھی درست قرار پائے گی۔ قرآن میں کہیں بھی نہیں آیا کہ اللہ تمہیں مساوات کا حکم دیتا ہے، بلکہ وہ تو یہ کہتا ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ﴾ (النحل: ۹۰)’’بیشک اللہ تمہیں عدل کا حکم دیتا ہے۔‘‘
﴿وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ﴾ (النساء: ۵۸)
’’اور جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔‘‘
دین اسلام مساوات کا نہیں بلکہ عدل کا دین ہے، ہاں اگر کوئی شخص مساوات سے عدل مراد لیتا ہو، تو پھر یہ معناً تو صحیح ہوگا مگر یہ لفظ پھر بھی غلط ہے۔قرآن مجید میں متعد مقامات پر مساوات کی نفی وار د ہوئی ہے۔ مثلاً:
﴿قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ (الزمر:۹)
[1] صحیح بخاری: ۲۵۸۷۔ صحیح مسلم: ۱۶۲۳۔