کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 157
اللہ کی محبت ایک عالی شان اور عظیم القدر مرتبہ ہے اور یہ اس رتبے سے کہیں بلند ہے کہ تو اس سے محبت کرے، اسی لیے فرمایا:
﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ﴾ (اٰل عمران: ۳۱)
’’کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم میری اتباع کرو اس طرح تم اللہ کے ساتھ اپنی محبت کے دعوے کو سچا ثابت کر دو گے حالانکہ تقاضا حال یہی تھا، بلکہ اس نے فرمایا: ﴿یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ﴾ کہ اللہ تم سے پیار کرنے لگے گا۔
اسی لیے بعض علماء فرماتے ہیں : اصل کمال یہ ہے کہ اللہ تم سے محبت کرے نہ کہ تم اس سے محبت کرو، ہر کوئی اللہ کے ساتھ محبت کرنے کا دعویٰ کرتا ہے مگر کیا وہ بھی اس سے محبت کرتا ہے؟ پھر جب اللہ تم سے محبت کرے گا تو آسمان کے فرشتے بھی تم سے پیار کرنے لگ جائیں گے، پھر آپ کو زمین میں قبولیت حاصل ہوگی۔[1] اور زمین والے بھی تم سے پیار کرنے لگیں گے، اور یہ مومن کو جلدی ملنے والی خوشخبری ہے۔
اس آیت میں اسماء باری تعالیٰ میں سے اللہ اور اس کی صفات میں سے الوہیت اور محبت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
دوسری آیت:… ﴿وَاَقْسِطُوْا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ﴾ ’’اور انصاف کرو یقینا اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
[اَقْسِطُوْا]… فعل امر ہے۔ اقساط، قسط نہیں بلکہ یہ رباعی فعل ہے اور اس میں ہمزہ نفی کا ہے، جب یہ کسی فعل پر داخل ہوتا ہے تو اس کے معنی کی نفی کر دیتا ہے، قَسَطَ، فعل، جَارَ کے معنی میں ہے۔ یعنی اس نے ظلم کیا، پھر جب اس پر ہمزہ داخل کیا گیا تو اَقسَط،عدل کے معنی میں ہوگیا، یعنی اس نے (قسط) کا ازالہ کر دیا جو کہ ظلم سے عبارت ہے، اس ہمزہ کو ہمزہ سلب بھی کہا جاتا ہے۔
مثلاً: خطئی، اس نے عمداً خطاء کا ارتکاب کیا، اخطأ: اس نے غیر ارادی طور پر خطا کا ارتکاب کیا۔ اس طرح اقسطوا کا معنی ہوگا: عدل کرو، عدل کرنا امر واجب ہے، اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں عدل کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے، اللہ رب تعالیٰ آپ پر طرح طرح کے انعامات فرماتا ہے، عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں ، اس نے ہم پر حق واضح فرما دیا، اب عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس حق کی اتباع کریں ۔
لوگوں کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے قیام عدل میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آپ ان کے ساتھ اس قسم کا معاملہ کریں جس قسم کا معاملہ آپ ان کی طرف سے پسند کرتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص یہ پسند کرتا ہے، کہ اسے آگ سے بچا کر جنت میں داخل کر دیا جائے تو اسے اس حال میں موت آئے کہ اس کا اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان ہو، اور وہ لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو وہ ان کی طرف سے اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘[2]
[1] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: صحیح بخاری: ۳۲۰۹۔ صحیح مسلم: ۲۶۳۷۔
[2] صحیح مسلم: ۱۸۴۴۔