کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 153
آنکھوں کی ٹھنڈک قرار پائی۔
جب کسی سے یہ کہا جائے کہ بھئی آپ پر مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنا فرض ہے، اور اس سے اس کا سینہ کھل جائے اور وہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہو اور نماز کی مشروعیت پر اس کی حمدوثناء کرنے لگے، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت دینے اور اس کے ساتھ خیر کا ارادہ کر لیا ہے۔
یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَام (شرح) توسیع دینے اور کھول دینے کے معنی میں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیجا تو انہوں نے اس سے یہ دعا کی:
﴿رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْo﴾ (طٰہٰ: ۲۵)’’میرے پروردگار! میرا سینہ کھول دے۔‘‘
یعنی اس شخص سے بات کرنے اور اسے دعوت کے لیے میرا سینہ کھول دے اور یہ اس لیے کہ فرعون بڑا جابر اور سرکش تھا۔
لِلْاِسْلَامِ اسلام کا اطلاق اصل اسلام، فروع اسلام اور واجبات اسلام پر ہوتا ہے، انسان کو اسلام اور شرائع اسلام کے بارے میں شرح صدر جس قدر زیادہ حاصل ہوگا۔ اسی قدر وہ اسے اللہ کی طرف سے توفیق ہدایت پر زیادہ دلالت کرے گا۔
[وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا] … یعنی اللہ تعالیٰ جس شخص کو گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کے سینے کو بہت زیادہ تنگ کر دیتا ہے، پھر اس کی مثال دیتے ہوئے فرمایا:﴿کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ﴾ یعنی جب اسے اسلام کی دعوت دی جاتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے اسے بڑی مشکل کے ساتھ آسمان کی طرف چڑھنا پڑ رہا ہو۔ ﴿یَصَّعَّدُ﴾ کی تعبیر اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ سخت قسم کی مشقت اٹھا کر آسمان میں چڑھنے کی کوشش کرتا ہے مگر چڑھ نہیں پاتا، ظاہر ہے بڑی مشکل اور مشقت سے اوپر اٹھنے کی کوشش کرنے والا تھک کر چکنا چور ہو جائے گا۔
الغرض! جس شخص کے سامنے اسلام پیش کیا جائے اور اللہ اسے گمراہ رکھنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ ایسی تنگی اور مشقت برداشت کرے گا گویا کہ وہ بڑی مشکل سے آسمان کی طرف چڑھ رہا ہو۔اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے لیے ارادہ کا اثبات ہوتا ہے۔
اس ارادہ سے مراد صرف ارادہ کونیہ ہے، اس لیے کہ اللہ نے فرمایا: ﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ﴾ اور پھر فرمایا: ﴿وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ﴾ اور اس قسم کی تقسیم صرف امور کونیہ میں ہی ہو سکتی ہے، رہے امور شرعیہ، تو اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ ہر شخص اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔
اس آیت میں سلوک و عبادت کے حوالے سے یہ تعلیم دی گئی ہے کہ کل اسلام کو قبول کرنا انسان پر واجب ہے، وہ اس کے اصل کو بھی قبول کرے اور اس کی فروع کو بھی، حقوق اللہ کی بھی ادائیگی کرے اور حقوق العباد کی بھی اور یہ کہ وہ اس کے لیے اپنا سینہ کھلا رکھے اور اگر وہ ایسا نہیں ہے تو پھر اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں اللہ نے گمراہ کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر کا ارادہ کر لیتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔‘‘[1] دین میں سمجھداری، قبول دین کا تقاضا کرتی ہے، اللہ کے دین میں سوجھ بوجھ رکھنے والے اور اس سے آشنا لوگ
[1] بخاری: ۷۱۔ مسلم: ۱۰۳۷ عن معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ۔