کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 152
اس آیت میں ہے:
﴿حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخَنْزِیْرِ وَ مَآ اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ﴾ (المائدۃ: ۳)
’’حرام کر دیا تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور جسے غیر اللہ کے نام پر مشہور کر دیا گیا ہو۔‘‘
اس جگہ استثناء منقطع بھی ہے اور متصل بھی۔ بَہِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ سے میت کا استثناء متصل ہے جبکہ لحم خنزیر کے استثناء کے اعتبار سے منقطع ہے، اس لیے کہ خنزیر کا شمار بہیمۃ الانعام کی فہرست میں نہیں ہوتا۔
[غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ] … یعنی حالت احرام میں شکار کرنے والے، اس لیے کہ جو شخص کوئی کام کرتا ہے وہ اسے حلال سمجھنے والے کی طرح ہوتا ہے۔ ﴿الصَّیْدِ﴾ شکاری جانور، اس سے مراد خشکی پر رہنے والے غیر پالتو مأکول اللحم جانور ہیں ۔ یہ وہ جانور ہیں جنہیں حالت احرام میں شکار کرنا حرام ہے۔
[اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ] … اس ارادہ سے مراد ارادۂ شرعیہ ہے، اس لیے کہ یہ تشریع کا وقت ہے، اس سے ارادہ شرعیہ کونیہ بھی مراد لیا جا سکتا ہے، اس صورت میں اس حکم کو، کونی شرعی حکم پر محمول کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جس چیز کا ارادہ کونی طور پر کرتا ہے اس کا حکم بھی کر دیتا ہے اور اسے واقع بھی کر دیتا ہے اور چیز کا شرعاً ارادہ کرتا ہے اس کا حکم جاری کر دیتا ہے اور اسے بندوں کے لیے مشروع قرار دے دیتا ہے۔
اس آیت میں اسم ’’اللّٰہ‘‘ کا ذکر ہے اور صفات میں سے: تحصیل، حکم اور ارادہ کا۔
چوتھی آیت: [فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ (الانعام: ۱۲۵) ] …
[فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ ] … اس جگہ ارادہ سے مراد ارادہ کونیہ اور ہدایت سے مراد، ہدایت توفیق ہے، اللہ جس شخص کو قبول ہدایت کی توفیق دے دے اس کا سینہ شرائع اسلام اور شعار اسلام کے لیے کھل جاتا ہے اور وہ انہیں خوشی خوشی ادا کرتا ہے۔
اگر آپ اپنے آپ کو ایسا ہی پاتے ہیں تو پھر یقین کیجئے کہ اس نے آپ کے لیے خیر اور ہدایت کا ارادہ کر لیا ہے، مگر جس شخص کا سینہ شرائع اسلام کے حوالے سے تنگ ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ نے اسے ہدایت دینے کا ارادہ نہیں کیا، اگر ایسا ہوتا تو اسے شرح صدر نصیب ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ نماز منافقین کے لیے گراں بار ہے مگر مخلصین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہاری دنیا سے مجھے عورتیں اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔‘‘[1]
پھر چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ کامل الایمان ہیں ، لہٰذا آپ کا سینہ نماز کے لیے کھل گیا اور وہ آپ کی
[1] اسے احمد: ۳/ ۲۱۸۔ نسائی: ۷/ ۶۱ اور حاکم: ۲/ ۱۶۰ نے روایت کیا اور اسے صحیح کہا۔ ابو یعلیٰ:۶/ ۱۹۹۔ حافظ نے تلخیص: ۳/۱۳۴ میں نسائی کی روایت کو صحیح کہا ہے۔