کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 151
وَ لَوْ شَآ ئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا… ضمیر کا مرجع مومنین وکفار ہیں ، جس کی دلیل یہ قرآنی آیت ہے: ﴿وَ لٰکِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْہُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْہُمْ مَّنْ کَفَرَ وَ لَوْ شَآ ئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا﴾(البقرۃ: ۲۵۳) ’’لیکن انہوں نے اختلاف کیا پھر ان میں سے کچھ ایمان لے آئے اور کچھ نے کفر کیا، اور اگر اللہ چاہتا تو وہ نہ لڑتے۔‘‘ یعنی اللہ نے چاہا کہ وہ لڑیں تو وہ لڑ پڑے، پھر فرمایا: ﴿یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ﴾ یعنی وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اس جگہ ارادہ سے مراد ارادہ کونیہ ہے، فعل اس اعتبار سے کہ اسے ذات باری تعالیٰ سر انجام دے فعل مباشر ہوتا ہے اور اس اعتبار سے کہ وہ اسے بندوں کے مقدر میں کر دے غیر مباشر ہوتا ہے، اس لیے کہ سبھی کے علم میں ہے کہ انسان جب صوم و صلاۃ کی پابندی کرتا، زکوٰۃ دیتا، حج ادا کرتا اور جہاد کرتا ہے، تو بلا شبہ فاعل انسان ہی ہوتا ہے اور یہ بھی ہمارے علم میں ہے کہ اس کا یہ فعل اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے سر انجام پاتا ہے۔ بندے کے فعل کو اللہ تعالیٰ کی طرف براہ راست منسوب کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ اسے براہ راست سر انجام دینے والا انسان ہے، ہاں اسے تقدیر وخلق کے حوالے سے اس کی طرف منسوب کرنا درست ہوگا، مگر جو افعال اللہ تعالیٰ خود کرتا ہے مثلاً اس کا عرش پر مستوی ہونا، کلام کرنا، آسمان دنیا پر نزول فرمانا اور ان جیسے دیگر امور، تو انہیں فعل مباشر کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اس قرآنی آیت میں اسماء باری تعالیٰ میں سے اللہ اور اس کی صفات میں سے مشیت، فعل اور ارادہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ تیسری آیت: [اُحِلَّتْ لَکُمْ بَہِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ (المائدۃ: ۱) ] … (احلت لکم) حلال کرنے والا اللہ تبارک و تعالیٰ ہے، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اشیاء کو حلال وحرام قرار دینے کا استحقاق رکھتے ہیں ، مگر یہ اللہ کی اجازت کے ساتھ مشروط ہے۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ’’ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال قرار دیئے گئے ہیں ۔‘‘[1] آپ اس طرح بھی فرمایا کرتے: ’’بیشک اللہ تم پر حرام کرتا ہے۔‘‘ کبھی اس طرح فرماتے کہ یہ چیز تم پر حرام کی گئی ہے اور کبھی کسی چیز کو حرام قرار دے کر اسے اپنی طرف منسوب فرماتے، مگر ایسا اللہ کے حکم سے ہوتا۔ [بَہِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ ] … اس سے مراد اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہے۔ (الانعام) نعم کی جمع ہے، جس طرح کہ سبب کی جمع اسباب آتی ہے۔ (بہیمۃ) انہیں اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کلام نہیں کر سکتے۔ [اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ ] … یعنی ماسوائے ان کے جو تمہیں اس صورت میں پڑھ کر سنائے جائیں گے اور ان کا ذکر
[1] اسے احمد: ۲/ ۹۷۔ ابن ماجہ: ۳۳۱۴ اور دارقطنی: ۴/ ۲۷۲ نے روایت کیا، دارقطنی فرماتے ہیں : اس کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے، بیہقی: ۱۱۲۵۴۔ آپ بھی اس کے موقوف ہونے کو ترجیح دیتے ہیں مگر یہ بھی کہتے ہیں اس کا حکم رفع کا ہے، اسے عبد بن حمید نے المنتخب: ۸۱۸۔ میں روایت کیا اور زیلعی نے نصب الرایہ: ۴/ ۲۰۲ میں ابن مردویہ کی طرف منسوب کیا۔ ملاحظہ ہو: الصحیحۃ: ۱۱۱۸۔