کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 150
اسی طرح قوم عاد کے بارے میں فرمایا:
﴿وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَہُمْ ہُوَ اَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّۃًo﴾ (فصلت: ۱۵)
’’اور انہوں نے کہا کہ ہم سے بڑھ کر قوت میں کون ہے؟ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ یقینا اللہ وہی ہے جس نے انہیں پیدا کیا وہ قوت میں ان سے بڑھ کر ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان سے قوت کی نفی نہیں کی بلکہ ان کے لیے اس کا اثبات کیا ہے۔ اس جگہ تطبیق کی دو صورتیں ہیں :
پہلی صورت: مخلوق میں موجود قوت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے، اگر اللہ کسی کو قوت نہ دیتا تو وہ قوی نہ ہوتا۔ انسان میں ودیعت کردہ قوت اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہے، لہٰذا اللہ کی مدد کے بغیر طاقت کا مطلقاً کوئی وجود نہیں ہے۔
دوسری صورت: ﴿لَا قُوَّۃَ﴾ سے مراد یہ ہے کہ قوت کاملہ صرف اللہ کے پاس ہے۔
علی کل حالاس صالح انسان نے اپنے ساتھی کو رشد وہدایت پر مبنی یہ تلقین کی کہ وہ اپنی طاقت پر گھمنڈ نہ کرے بلکہ یہ کہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی مشیت اور اس کی قوت سے ممکن ہوا۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے ایک اسم (اَللّٰہُ) کا اثبات ہے، اور تین صفات کا بھی، اور وہ ہے: الوہیت، قوت اور مشیت۔
اللہ کی مشیت اس کا کونی ارادہ ہے، جو اس کے پسندیدہ امور میں بھی نافذ ہوتا ہے۔ اور غیر پسندیدہ امور میں بھی۔
بدون تفصیل اس کے تمام بندوں پر بھی جسے اللہ چاہے اسے ہر حالت میں معرض وجود میں آنا ہوتا ہے۔ وہ اسے پسند کرتا ہو یا نا پسند، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوسری آیت: [وَ لَوْ شَآ ئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ (البقرۃ: ۲۵۳) ] … (لَوْ) حرف امتناع ہے، اس کا جواب (ما) کے ساتھ منفی ہو تو اس وقت لام کو حذف کرنا زیادہ فصیح ہوتا ہے اور اگر وہ مثبت ہو تو پھر زیادہ تر لام ثابت رہتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
﴿لَوْ نَشَائُ لَجَعَلْنَاہُ حُطَامًا﴾ (الواقعہ: ۶۵)’’اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کر دیں ۔‘‘
ہم نے زیادہ تر کہا ہے، زیادہ فصیح نہیں کہا، اس لیے کہ یہ قرآن میں دونوں طرح استعمال ہوا ہے، اثبات لام کی مثال ابھی اوپر گزری ہے اور حذف لام کی مثال ہے:
﴿لَوْ نَشَائُ جَعَلْنَاہُ اُجَاجًا﴾ (الواقعہ: ۷۰)’’اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا بنا دیں ۔‘‘
رہا ہمارا یہ قول کہ منفی میں لام کو حذف کرنا زیادہ فصیح ہے، تو یہ اس لیے کہ لام تاکید کا فائدہ دیتی ہے جبکہ نفی تاکید کی نفی کرتی ہے، جب صورت حال یہ ہے تو پھر شاعر کا یہ شعر:
وَلَوْ نُعْطَی الْخِیَارَ لَمَا افْتَرَقْنَا وَلٰکِنْ لَا خِیَارَ مَعَ اللَّیَالِي
افصح کے خلاف ہوگا، افصح عبارت یوں ہوتی: ما افترقنا۔