کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 149
﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ﴾ (الانعام: ۱۲۵) ’’پھر اللہ جسے ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے، اور جسے گمراہ رکھنا چاہتا ہے تو اس کے سینے کو تنگ گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا کہ وہ آسمان کی طرف چڑھ رہا ہو۔‘‘ شرح:… ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے لیے دو صفات: ارادہ اور مشیت کا اثبات کیا گیا ہے۔ پہلی آیت:[وَ لَوْ لَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَکَ قُلْتَ مَا شَآئَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ (الکہف: ۳۹)] … ﴿وَلَوْلَا﴾ ہَلَّا کے معنی میں ہے، جو کہ تحضیض کے لیے ہے، اور اس جگہ اس سے مراد توبیخ ہے، یعنی وہ اپنے ساتھی کو اس قول کے ترک کرنے پر ڈانٹ پلا رہا تھا۔ [اِذْ دَخَلْتَ ] … یعنی جس وقت تو داخل ہوا۔ [جَنَّتَکَ] … اَلجنّۃَمیم کی زبر کے ساتھ، بہت زیادہ درختوں پر مشتمل باغ، اسے یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ وہاں موجود لوگ اس کے درختوں اور ان کی ٹہنیوں میں چھپ جاتے ہیں ، یہ مادہ (جیم، نون) استستار (چھپ جانے) پر دلالت کرتا ہے، اسی سے ’’الجنۃ‘‘… جیم کی زیر کے ساتھ ہے۔ یعنی جن، اس لیے کہ وہ لوگوں سے چھپے رہتے ہیں ، لفظ ’’الجنۃ‘‘ جیم کی پیش کے ساتھ۔ بھی اسی مادہ سے ماخوذ ہے، یعنی ڈھال۔ اس جگہ جنۃ بطور مفرد استعمال ہوا، جبکہ دیگر قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو باغ تھے، اس کا کیا جواب ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مفرد اضافت کے وقت عام ہو جاتا ہے اور اس صورت میں وہ دو باغوں کو بھی شامل ہو جاتا ہے، یا قائل کے پیش نظر ان کی قدر ومنزلت کو گھٹا کر بیان کرتا تھا، اس لیے کہ وہ وقت پند ونصیحت کا تھا نہ کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق پر فخر غرور کرنے کا۔ گویا کہ وہ ان کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے یہ کہنا چاہتا تھا کہ یہ دو نہیں بلکہ ایک ہی باغ ہے مگر پہلی وجہ عربی زبان کے قواعد کے زیادہ قریب ہے۔ ﴿قُلْتَ﴾ لَوْ لَآ کا جواب ہے۔ [مَا شَآئَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ] … (ما) موصولہ بھی ہو سکتا ہے اور شرطیہ بھی، موصولہ ہونے کی صورت میں مبتداء محذوف کی خبر ہے، اس صورت میں تقدیری عبارت ہوگی: ماشاء اللّٰہ کان، یعنی وہی ہوگا جو اللہ چاہے گا۔ یعنی تجھے باغ میں داخل ہوتے وقت ﴿مَا شَآئَ اللّٰہُ﴾ کہنا چاہیے تھا۔ تو نہ اپنی قوت پر نازاں ہوتا اور نہ اپنے باغ پر فخر کرتا۔ [لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ]…(لَا) نفی جنس کے لیے ہے۔ اور﴿قُوَّۃَ﴾ نفی کے سیاق میں نکرہ ہے، قوت ایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے فاعل بغیر کسی کمزوری کے اپنے ارادہ کی تکمیل کر سکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ غیر اللہ سے لیے قوت کی نفی اور اس ارشاد ربانی میں تطبیق کی کیا صورت ہوگی: ﴿اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّن ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً﴾ (الروم: ۵۴) ’’اللہ تو وہ ہے جس نے تمہیں ضعف سے پیدا کیا پھر ضعف کے بعد قوت دی۔‘‘