کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 147
’’بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کے حوالے کر دو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو۔‘‘ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم امانتیں ان کے مالکوں کے حوالے کریں ۔ کسی انسان کے حق میں گواہی دینا یا اس کے خلاف گواہی دینا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اور یہ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے وقت عدل کا ترازو قائم رکھیں ، گویا اللہ تعالیٰ ہمیں حکم دے رہا ہے کہ ہم حکم تک پہنچنے کے لیے بھی اپنی ذمہ داری ادا کریں اور حکم کرتے وقت بھی حکم تک پہنچنا جو کہ شہادت سے عبارت ہے اس آیت کریمہ کے عموم میں داخل ہے: ﴿اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا﴾ اور فیصلہ جاری کرتے وقت اپنی ذمہ داری نبھانے کا حکم اس آیت میں ہے: ﴿وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ﴾اس کے بعد ارشاد ہوا:﴿اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ﴾ ﴿نِعِمَّا﴾ اصل میں ’’ نعم ما‘‘ تھا، ادغام کبیر کے باب سے میم کو میم میں مدغم کر دیا، اور یہ اس لیے کہ دو ہم جنس حرفوں میں ادغام صرف اسی صورت میں ہوتا ہے جب ان میں سے پہلا حرف ساکن ہو جبکہ اس جگہ پہلے حرف کے مفتوح ہونے کے باوصف ادغام کر دیا گیا ہے۔ [نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ] … اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ادائے امانت اور حکم بالعدل کو موعظت قرار دیا۔ اس لیے کہ ہر وہ چیز جس سے دلوں کی اصلاح ہوتی ہو موعظت کہلاتی ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان فرائض کی ادائیگی سے دلوں کی اصلاح ہوا کرتی ہے۔ [اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا] … (کَانَ) فعل ہے، مگر زمانے سے عاری، اور اس سے مراد فقط وصف پر دلالت کرنا ہے۔ یعنی یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ سمع اور بصر کے ساتھ متصف ہے ہم نے اسے زمانے سے عاری اس لیے کہا کہ اگر ہم اسے دلالت زمنیہ پر باقی رکھیں تو پھر اس وصف کو قصہ پارینہ سمجھنا پڑے گا، یعنی وہ ماضی میں تو سمیاً بصیرأ تھا ۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ جبکہ سبھی کے علم میں ہے کہ یہ معنی فاسد و باطل ہے۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سمع و بصر کے ساتھ متصف ہے اس قسم کے سیاق میں ﴿کَانَ﴾ سے مراد تحقیق ہوا کرتی ہے۔ [سَمِیْعًا بَصِیْرًا] … ہم اس کے بارے میں بھی وہی بات کہیں گے جو قبل ازیں آیت کے بارے میں کہی گئی تھی کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے لیے سمع کی دونوں قسموں اور بصر کی دونوں قسموں کا اثبات ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انگوٹھے اور انگشت شہادت کو اپنی آنکھ اور کان پر رکھا۔[1] اس وضع سے مراد سمع و بصر کی تحقیق ہے آنکھ اور کان کا اثبات نہیں ، اس لیے کہ آنکھ کا ثبوت تو دوسرے دلائل میں موجود ہے، جبکہ اہل سنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے لیے کان ثابت نہیں ہے، ویسے اس کی نفی بھی نہیں کیجا سکتی، اس لیے کہ اس کے نقلی دلائل نہیں ملتے۔ سوال : کیا میں بھی اس طرح کر سکتا ہوں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا؟
[1] اس کی تخریج پہلے گزر چکی ہے۔