کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 146
اس کی عظمت وکمال سے آگاہی حاصل کرنا اور اس بات سے خبردار رہنا کہ وہ تجھے اپنی معصیت کرتے دیکھے یا تیری زبان سے کوئی غیر پسندیدہ بات سنے۔ یاد رہے کہ علماء نحو ارشاد باری تعالیٰ: ﴿کَمِثْلِہِ﴾ کے بارے میں لمبی چوڑی بحث کرتے رہے ہیں ، ان کا ایک قول یہ ہے کاف (مثل) پر داخل ہے، جس کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ: اللہ کی مثال جیسی کوئی مثال نہیں ہے، اس لیے کہ اس نے ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ﴾ فرمایا ہے، آیت کا یہ ظاہری مفہوم لفظی حیثیت سے ہے نہ کہ معنوی حیثیت سے، اس لیے کہ اگر ہم یہ کہیں کہ یہ معنی کی حیثیت سے اس کا ظاہری مفہوم ہے، تو اس صورت میں ظاہر قرآن کفر ٹھہرے گا جو کہ مستحیل ہے اس آیت کی تخریج میں نحویوں کے متعدد اقوال ہیں : پہلا قول:کاف زائدہ ہے، اور تقدیری کلام اس طرح ہے: لیس مثلہ شے یہ قول اطمینان بخش ہے اس لیے کہ نفی میں حروف کی زیادتی کثیر الوقوع ہے، مثلاً: ﴿وَ مَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰی﴾ (فاطر:۱۱) میں (من) زائدہ ہے ان کا کہنا ہے کہ عربی زبان میں حروف زائدہ کا استعمال عام سی بات ہے۔ دوسرا قول: یہ قول پہلے قول کے بالکل برعکس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کاف نہیں بلکہ (مثل)زائد ہے اور تقدیر کلام ہے: لیس کھو شیٰ۔ مگر یہ قول ضعیف ہے اس لیے کہ عربی زبان میں اسماء کا زائد ہونا قلیل الوجود ہے بخلاف حروف کے۔ اگر ہمیں کسی چیز کو زائد قرار دینا ہی ہے تو وہ حرف یعنی کاف ہونا چاہیے نہ کہ اسم۔ تیسرا قول: (مثل) صفت کے معنی ہیں اس طرح معنی ہوگا: ’’لیس کصفتہ شییٌ‘‘ یعنی اس کی صفت جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: مِثل، مَثل، شِبہ اور شَبہ عربی لغت میں ایک ہی معنی میں آتے ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ﴾ (محمد:۱۵)’’اس جنت کی صفت جس کا پرہیز گاروں سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘ اس جگہ مثل صفت کے معنی میں ہے ہمیں یہ قول صائب لگتا ہے۔ چوتھا قول: آیت میں کچھ بھی زائد نہیں ہے، البتہ : ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْئٌ ﴾ کہنے سے مثل کی نفی لازم آئے گی۔ جب مثل کی مثل نہیں ہے تو پھر موجود ایک ہی قرار پائے گا۔ اس قول کے قائلین عربی لغت سے اس کی یہ مثال پیش کرتے ہیں : ’’لیس کمثل الفتٰی زہیرٌ۔‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر علماء نحو کی یہ بحثیں آپ کے سامنے نہ بھی پیش کی جائیں تو بھی آیت کا معنی بالکل واضح ہے، اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی مثیل نہیں ہے، ہمارے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ کاف زائدہ ہے، مگر آخری معنی زیادہ عمدہ ہے۔ [اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا (النساء: ۵۸)] …یہ آیت قرآن مجید کی اس آیت کا تکملہ ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالَعَدْلِ﴾ (النساء: ۵۸)