کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 145
الاول: ایسی سماعت جس سے یہ بتاتا مقصود ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر آواز کو سنتا ہے۔
الثانی : ایسی سماعت جس سے تائید ونصرت مراد ہو۔
الثالث: ایسی سماعت جس سے وعید وتہدید مقصود ہو۔
پہلی قسم کی مثال: ﴿قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ﴾ (المجادلۃ:۱) ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے خاوند کے بارے میں آپ سے جھگڑا کر رہی تھی اور اللہ تعالیٰ سے شکایت کر رہی تھی‘‘ اس ارشاد ربانی میں اس امر کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سماعت نے ہر مسموع کا احاطہ کر رکھا ہے، اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا: ’’سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی سماعت تمام آوازوں کو محیط ہے، بیشک میں حجرہ میں تھی اور اس کی کچھ باتیں مجھے سنائی نہیں دے رہی تھیں ۔‘‘
دوسری قسم کی مثال: موسیٰ وہارون کے لیے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے: ﴿اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی﴾ (طٰہٰ: ۴۶) ’’بے شک میں تمہارے ساتھ ہوں سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں ۔‘‘
تیسری قسم کی مثال: قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
﴿اَمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّہُمْ وَنَجْوَاہُمْ بَلٰی وَرُسُلُنَا لَدَیْہِمْ یَکْتُبُوْنَ﴾ (الزخرف: ۸۰)
’’کیا ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ان کی مخفی باتوں اور سرگوشیوں کو نہیں سنتے ہیں کیوں نہیں ، ان کے پاس موجود ہمارے فرشتے لکھتے چلے جاتے ہیں ۔‘‘
اس سے مقصود ان کی اس بات پر سرزنش کرنا ہے کہ وہ چھپے چھپے غیر پسندیدہ باتیں کیا کرتے تھے۔ سمع بمعنی ادراک مسموع کا شمار اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ میں ہوتا ہے، اگرچہ مسموع کبھی حادث بھی ہوا کرتا ہے۔ سمع بمعنی تائید ونصرت کا شمار صفات فعلیہ میں ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ کسی سبب کے ساتھ مربوط ہوتی ہیں ۔ سمع بمعنی اجابت کا شمار بھی صفات فعلیہ میں ہوتا ہے۔
[البَصِیْرُ] … یعنی وہ تمام مبصرات کا ادراک کرنے والا ہے، بصیر، علیم کے معنی میں بھی آتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس معنی میں بھی بصیر ہے کہ وہ پوشیدہ سے پوشیدہ چیز کو بھی دیکھتا ہے، اور اس معنی میں بھی بصیر ہے کہ وہ بندوں کے افعال کا علم رکھتا ہے۔ فرمایا گیا ہے:
﴿وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَo﴾ (الحجرات: ۱۸) ’’اور اللہ تمہارے اعمال سے آگاہ ہے۔‘‘
ہمارے کچھ اعمال تو دیکھے جا سکتے ہیں ، جبکہ کچھ نہیں دیکھے جا سکتے۔ اس اعتبار سے اللہ کا بصیر ہونا دو قسم کا ہے۔ اور یہ دونوں قسمیں ﴿اَلْبَصِیْرُ﴾ میں داخل ہیں ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے دو ناموں : اَلسَّمِیْعُ اور اَلْبَصِیْرُ اور تین صفات کا اثبات ہے جو کہ یہ ہیں ، اس کی صفات کا نفی مماثلت سے کمال اور سمع وبصر۔
اس سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق کے ساتھ مماثل قرار دینے کی کوشش سے باز رہنا۔