کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 143
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کو حصول رزق کے لیے کوشاں رہنا چاہیے، اگر اللہ تعالیٰ مغفرت فرمانے والا ہے تو اس کا یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ مغفرت کی امید پر اعمال صالحہ سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے۔ رہا شاعر کا یہ قول کہ:
جُنُوْنٌ مِنْکَ أَنْ تَسْعَی لِرِزْقٍ وَیُرْزَقُ فِیْ غِشَاوَتِہِ الْجَنِیْنُ
’’جب شکم مادر میں بچے کو رزق ملتا ہے تو پھر تیری طرف سے اس کے حصول کی کوشش کرنا پاگل پن ہے۔‘‘
تو یہ باطل ہے، جہاں تک جنین کو رزق فراہم کیے جانے سے استشہاد کا تعلق ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے تلاش رزق کا مطالبہ اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس پر قدرت ہی نہیں رکھتا۔ جو اس پر قادر ہے اس کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا وَکُلُوْا مِنْ رِزْقِہِ﴾ (الملک: ۱۵)
’’وہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم بنایا، تو اس کے راستوں میں چلو پھرو اور اس کے رزق سے کھاؤ پیو۔‘‘
حصول رزق کے لیے کوشش کرنا ضروری ہے۔ البتہ یہ کوشش شریعت کے دائرہ میں رہ کر ہونی چاہیے۔
[ذُوالْقُوَّۃِ] …قوت ایک ایسی صفت ہے، جسے فاعل کام میں لاتے ہوئے بغیر کسی کمزوری کے اپنے فعل کو سر انجام دے سکے۔ اس کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّن ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً﴾ (الروم: ۵۴)
’’اللہ تو وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری سے پیدا کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت عطا کی۔‘‘
قوت، قدرت سے الگ ایک دوسری چیز ہے۔ قرآن کہتا ہے:
﴿وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعْجِزَہٗ مِنْ شَیْئٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ اِنَّہٗ کَانَ عَلِیْمًا قَدِیْرًاo﴾ (فاطر: ۴۴)
’’اور اللہ ایسا نہیں تھا کہ اسے کوئی چیز عاجز کر سکتی آسمانوں میں اور نہ زمین ہیں ، یقینا وہ خوب علم والا، بڑی قدرت والا ہے۔‘‘
قدرت کے مقابلے میں عجز جبکہ قوت کے بالمقابل ضعف آتا ہے اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ قدرت کے ساتھ صرف ذی شعور کو موصو ف کیا جا سکتا ہے جبکہ قوت کے ساتھ ذی شعور کے ساتھ غیر ذی شعور کو بھی موصوف کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ قوت، قدرت سے خاص ہے، ذی شعور میں سے ہر قوی قادر ہوتا ہے مگر ہر قادر قوی نہیں ہوتا، مثلاً آپ آندھی کو قوی تو کہہ سکتے ہیں مگر اسے قادر نہیں کہہ سکتے، آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ لوہا قوی ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ لوہا قادر ہے، مگر ذی شعور کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ قوی ہے یا وہ قادر ہے۔
جب قوم عاد نے کہا: ﴿مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً ﴾ (فصلت: ۱۵) ’’ہم سے قوت میں بڑھ کر کون ہے؟‘‘ تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَہُمْ ہُوَ اَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّۃً﴾ (فصلت: ۱۵)