کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 139
لیے کہ (أبان) متعدی بھی استعمال ہوتا ہے اور لازم بھی کہا جاتا ہے، أبان الفجر فجر ظاہر ہوگئی، اور ابان الحق، اس نے حق ظاہر کر دیا۔ اس جگہ کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے۔
یہ سب چیزیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو معلوم ہیں اور اس کے پاس لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہیں ۔ اس لیے کہ ’’جب اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا تو اسے حکم دیا: لکھ۔ اس نے کہا: کیا لکھوں ؟ اللہ نے فرمایا: وہ سب کچھ لکھ دے جو روز قیامت تک ہونے والا ہے۔‘‘[1] چنانچہ اس نے اس وقت وہ سب کچھ لکھ ڈالا جو قیامت تک ہونے والا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ہاتھوں میں کتابیں تھما دیں جن میں وہ انسان کے اعمال لکھا کرتے ہیں ، اس لیے کہ جو کچھ لوح محفوظ میں ہے، اس میں وہ کچھ لکھا گیا ہے جو انسان کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور جو تحریر فرشتے لکھتے ہیں ، یہ وہ ہے جس کا انسان کو بدلہ دیا جاتا ہے، اسی لیے اللہ فرماتا ہے:
﴿وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجَاہِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصَّابِرِیْنَ﴾ (محمد: ۳۱)
’’اور ہم تم کو ضرور آزمائیں گے یہاں تک کہ ہم جان لیں تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اور صبر کرنے والوں کو۔‘‘
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس کا فلاں بندہ صبر کرے گا یا نہیں کرے گا؟ تو اس کا اسے پہلے سے علم ہے مگر اس پر ثواب وعقاب مرتب نہیں ہوتا۔
تیسری آیت: [وَ مَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰی وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ(فاطر: ۱۱)]… (ما) نافیہ ہے، اور (أنثٰی) (تحمل) کا فاعل ہے، مگر اسے اس کے آخر میں ضمہ مقدرہ کے ساتھ اعراب دیا گیا ہے جس کے ظہور سے محل اعراب کا زائد حرف جر کی حرکت کے ساتھ مشغول ہونا مانع ہے۔
اشکال:… آپ حرف جر کو زائد کیسے کہہ سکتے ہیں : قرآن میں تو کوئی چیز زائد نہیں ہے؟
جواب : وہ صرف اعراب کے اعتبار سے زائد ہے، جبکہ معنی کے اعتبار سے مفید ہے۔ قرآن مجید میں ایسی کوئی زائد چیز نہیں ہے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو، جب ہم قرآن میں کسی چیز کو زائد کہتے ہیں تو وہ اس معنی میں زائد ہوتی ہے کہ اگر اسے حذف کر دیا جائے تو اس سے اعراب میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوگا۔
(من انثٰی) یہ کسی بھی مادہ کو شامل ہے، اس کا تعلق اولاد آدم سے ہو یا کسی اور حیوان سے مثلاً: گائے، اونٹنی اور بکری… اس میں انڈے دینے والے جانور بھی شامل ہیں ۔ اس لیے کہ انڈہ بھی پرندے کے پیٹ میں حمل ہی ہوتا ہے۔
﴿وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ﴾ حمل کی ابتدا بھی اللہ کے علم میں ہوتی ہے، پھر اس کی انتہا اور جنین کی پیدائش بھی اللہ کے علم میں ہوتی ہے۔
چوتھی آیت: [لِتَعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ وَّاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا
[1] مسنداحمد:۵/۳۱۷۔ ابوداود:۴۷۰۰۔ ترمذی:۲۱۵۵۔ مستدرک حاکم:۲۱۴۹۷۔ البیہقی، ’’الاسماء والصفات‘‘:۸۰۴۔ آجری، ’’الشریعۃ‘‘:۱۱۷۸۔ ابن ابی عاصم، ’’السنۃ‘‘:۱۰۵ اس حدیث کو البانی نے ’’الصحیحہ: ۱۳۳‘‘ میں اور ’’السنۃ‘‘ لابن ابی عاصم: ۱/ ۴۸، ۴۹ میں صحیح کہا ہے۔