کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 138
زمین میں موت آئے گی یا کسی اور زمین میں ، وہ مسلمانوں کی زمین میں مرے گا یا کافروں کی زمین میں ۔ اسے اس کا بھی علم نہیں کہ وہ خشکی میں مرے گا یا کسی سمندر میں ، یا فضا میں ہی موت آجائے گی؟ یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتا کہ اسے موت کس وقت آئے گی، اس لیے کہ جب اسے یہ معلوم نہیں کہ وہ کون سی زمین میں مرے گا، حالانکہ وہ زمین کے بارے میں اپنی خواہش کے مطابق تصرف کر سکتا ہے۔ تو اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کون سے وقت اور کون سی گھڑی میں لقمہ اجل بن جائے گا۔ یہ پانچ چیزیں غیب کی چابیاں ہیں جن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے انہیں ﴿مَفَاتِحُ الْغَیْبِ﴾ کا نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ مافی الارحام کا علم دنیوی زندگی کی چابی ہے، کل کی کمائی کا علم مستقبل کے عمل کی چابی اور کسی مخصوص قطعہ ارضی میں مرنے کا علم اخروی زندگی کی چابی ہے۔ اس لیے کہ انسان موت کے فوراً بعد عالم آخرت میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ تمام چابیاں اپنے مابعد کی ہر چیز کے لیے مبادیٔ اور اسباب ہیں ۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ﴾ ’’یقینا اللہ علیم وخبیر ہے۔‘‘ پھر فرمایا گیا: [وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ] …’’وہی جانتا ہے کہ خشکی اور سمندر میں کیا ہے۔‘‘ یہ اجمال ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ سمندر میں موجود، حیوانات، حشرات، اشجار اور آبی حیات کی دیگر مختلف اجناس کو کوئی بھی شمار نہیں کر سکتا، کہا جاتا ہے کہ خشکی کے مقابلہ میں سمندر میں تین گنا زیادہ مختلف اجناس پائی جاتی ہیں اور یہ اس لیے کہ زمین کا زیادہ حصہ پانی پرمشتمل ہے۔ [وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّ رَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا] … ’’وہ درخت کے گرنے والے ہر پتے کا علم رکھتا ہے۔‘‘ یہ ہے اس اجمال کی تفصیل، کسی بھی درخت سے گرنے والا ہر پتہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا قریب ہو یا بعید، اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (ما) نافیہ اور (من) زائدہ ہے جسے ہر گرنے والے پتے کا علم ہے وہ تخلیق کردہ پتے کا بطریق اولیٰ علم رکھتا ہے۔ اس سے آپ اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعتوں کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ، وہ کائنات میں موجود ہر شے کا عالم ہے حتیٰ کہ جو چیز ابھی تک معرض وجود میں نہیں آئی اسے اس کا بھی بخوبی علم ہے۔ [وَلَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ]…(الانعام: ۵۹) زمین کی تاریکیوں میں پنہاں چھوٹے سے چھوٹا دانہ جس تک آنکھ کی رسائی نہیں ہے، وہ بھی اللہ کے علم میں ہے۔ [ظُلُمٰتِ] … یہ ظلمۃ کی جمع ہے، فرض کریں ایک چھوٹا سا دانہ برستی بارش والی تاریک رات میں سمندر کی گہرائی میں پڑا ہو اور اسے کئی تاریکیوں نے اپنے اندر چھپا رکھا ہو، مثلاً مٹی کی تاریکی، پانی کی تاریکی، بارش کی تاریکی، بادل کی تاریکی اور پھر رات کی تاریکی، زمین کی ان پانچ تاریکیوں کے باوجود اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس دانے کا علم بھی رکھتا ہے اور اسے دیکھتا بھی ہے۔ [وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ] … ’’دنیا میں موجود ہر چیز خشک ہوگی یا تر۔‘‘ [اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ] … (کتاب) مکتوب کے معنی میں ہے۔ (مبین) یعنی ظاہر کرنے والی اور خود ظاہر، اس