کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 136
آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے قدرے تفصیل کے ساتھ ہر چیز کے بارے میں اپنے علم کا ذکر کیا۔ پھر دوسری آیت میں اس کی مزید تفصیل فراہم کرتے ہوئے فرمایا:﴿وَ عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّ رَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍo﴾ [عِنْدَہٗ]… یعنی اللہ کے پاس، یہ خبر مقدم ہے اور (مفاتح) مبتدا مؤخر۔ یہ ترکیب حصر اور اختصاص کا فائدہ دیتی ہے، یعنی غیب کی چابیاں اللہ کے پاس ہیں کسی اور کے پاس نہیں ، پھر اس حصر کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ﴿لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ﴾ گویا اس حصر کو دو طریقوں سے ثابت کیا گیا۔ تقدیم و تاخیر کے طریقہ سے اور نفی واثبات کے طریقہ سے۔ [مَفَاتِحُ ] … کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ مِفْتَح (میم کی زیر اور تاء کی زبر کے ساتھ) کی جمع ہے بمعنی چابی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ مفتاح کی جمع ہے مگر اس سے یاء کو حذف کر دیا گیا ہے مگر یہ استعمال قلیل ہے، تیسرا قول یہ ہے کہ یہ مفتح (میم کی زبر اور تاء کی زیر کے ساتھ) کی جمع ہے، بمعنی خزانے ﴿مَفَاتِحُ الْغَیْبِ﴾ یعنی غیب کے خزانے۔ ﴿مَفَاتِحُ الْغَیْبِ﴾ کا معنی: مبادیٔ الغیب بھی کیا گیا ہے۔ [الْغَیْبِ] … غاب، یغیب غیبا سے مصدر ہے اور غیب سے مراد غائب ہے، غیب نسبی امر ہے مگر غیب مطلق کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔ الغرض! مفاتح سے مراد مبادیٔ ہوں ، خزائن ہوں ، یا پھر چابیاں ، ان کا علم صرف اللہ کے پاس ہے، اس کے علاوہ نہ کسی فرشتے کے پاس ہے اور نہ کسی رسول کے پاس۔ یہاں تک اشرف الملائکہ، جبرئیل علیہ السلام نے اشرف الرسل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’مجھے قیامت کے بارے میں بتائیں ۔‘‘ تو آپ نے فرمایا: ’’قیامت کے بارے میں مسؤل سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘[1] جس کا معنی یہ ہے کہ اگر تمہیں قیامت کا علم نہیں ہے تو مجھے بھی نہیں ہے۔ اب اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ مجھے قیامت کا علم ہے، تو وہ کافر وکاذب ہے اور اس کی تصدیق کرنے والا بھی کافر ہے، اس لیے کہ وہ قرآن کی تکذیب کرتا ہے۔ مخلوقات میں کلام اللہ کے سب سے بڑے عالم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر یہ آیت پڑھ کر فرمائی: [اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌo] (لقمان:۳۴) [2]’’بے شک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی بارش اتارتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ (ماؤں کے) رحموں میں ہے اور کسی جان کو یہ معلوم نہیں کہ اسے آئندہ کل کیا کرنا ہے اور نہ ہی کسی جان کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس زمین میں مرے گی۔‘‘
[1] اس کی تخریج پہلے گزر چکی ہے۔ [2] صحیح بخاری: ۴۷۷۸ عن ابن عمر رضی اللہ عنہ ۔