کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 113
اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔[1] الغرض سبب نزول کوئی بھی ہو، اگر ہم سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا جائے تو ہمیں اس حقیقت کا برملا اظہار کرنا ہوگا۔ ﴿قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌo اَللّٰہُ الصَّمَدُ﴾
﴿قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ﴾[2] (ہُوَ) ضمیر ہے، مگر اس کا مرجع کون سا ہے؟ ایک قول کی رو سے اس کا مرجع مسؤل عنہ ہے، یعنی جس کے بارے میں تم سوال کر رہے ہو، وہ اللہ ہے… دوسرے قول کی رو سے یہ ضمیر شان مبتدا ہے۔ (اللّٰہ) مبتدا ثانی اور (احد) مبتدا ثانی کی خبر ہے۔ جبکہ پہلی وجہ کی صورت میں (ہُوَ) مبتدا، (اللّٰہ) خبر اول اور (اَحَدٌ) خبر ثانی ہے۔
لفظ اللہ کا معنی
(اللّٰہ)یہ ذات باری تعالیٰ کا علم اور اسی کے ساتھ مختص ہے، اس کے علاوہ کسی کو بھی اس نام سے موسوم نہیں کیا جا سکتا، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی نام ہیں وہ بجز معدودے چند اس کے تابع ہیں ۔
لفظ (اللّٰہ) کا معنی ’’ألا لہ‘‘ ہے۔ اور ’’الہ‘‘ بعنی ’’مألوہ‘‘ یعنی معبود ہے، کثرت استعمال کی وجہ سے ہمزہ کو تخفیفاً حذف کر دیا گیا۔ جس طرح کہ (الناس) میں ہے جو کہ اصل میں (ألاناس) تھا، اسی طرح: ’’ہذا خیر من ہذا‘‘ اصل میں : أخیر من ہذا، تھا، مگر کثرت استعمال کی وجہ سے ہمزہ حذف کر دیا گیا۔
(احد) اس کے ساتھ مثبت کلام میں رب تعالیٰ کا وصف بیان کیا جاتا ہے، اس لیے کہ وہ احد ہے، یعنی اپنی ذات وصفات اور اسماء وافعال کے ساتھ مختص چیزوں میں متوحد ہے۔ وہ (احد) ہے کہ اس کا کوئی ثانی نہیں ، اس کی کوئی نظیر نہیں اور اس کا کوئی ہم سر نہیں ۔(اللّٰہ الصمد) یہ جملہ مستانفہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی احدیت کا ذکر کرنے کے بعد اپنی صمدیت کا ذکر کیا اور افادہ حصر کے لیے اسے جملہ معرفہ کے انداز میں لایا گیا، یعنی اللہ ہی یکتا و بے نیاز ہے۔
لفظ الصمد کا معنی
(الصمد) کے معنی میں کئی اقوال ہیں :
(أ) (الصمد) جو اپنے عمل، قدرت وحکمت، عزت وسیادت اور جملہ صفات میں کامل ہو۔
(ب) (الصمد) جس کا پیٹ ہو نہ انتڑیاں ، ملائکہ کو بھی صمد کہا جاتا ہے، اس لیے کہ ان کے پیٹ نہیں ہوتے، وہ نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں ، یہ معنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔[3] اور یہ معنی اول کے منافی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ اس
[1] مسند احمد: ۵/ ۱۳۳۔ ترمذی: ۳۳۶۴۔ بیہقی فی ’’الاسماء والصفات‘‘ رقم: ۶۰۷، ۶۰۸، ۵۰۔ ابن خزیمہ فی ’’التوحید‘‘: ۴۵۔ دارمی فی ’’الرد علی الجہمیۃ، رقم: ۲۸۔ حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں ، اسے بیہقی نے جید سند کے ساتھ نکالا(۳۵۶/۱۳) اور البانی نے اسے صحیح سنن ترمذی میں صحیح کہا: ۲۶۸۔
[2] اسے ابوشیخ نے کتاب ’’العظمۃ‘‘ میں روایت کیا، اس کی سند میں یحییٰ بن عبداللہ بابلتی ضعیف ہے، جیسا کہ ’’التقریب‘‘میں بتایا گیا ہے، اس کا دوسرا راوی آبان بن ابی عیاش متروک ہے۔ اسے سیوطی نے ’’درمنثور ۶/۵۰۴‘‘ میں ’’فضائل قل ہو اللہ احد‘‘ میں ابوبکر سمرقندی کی طرف منسوب کیا ہے۔
[3] اسے ابن ابی عاصم نے ’’السنۃ‘‘ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بسند ضعیف روایت کیا ہے (۶۶۵) مجاہد رحمہ اللہ سے یہ معنی صحت کے ساتھ ثابت ہے، ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسے عبداللہ بن بریدہ پر موقوف ہونے کو صحیح قرار دیا ہے۔