کتاب: شمائل نبويہ - صفحہ 105
صحیح سنت میں وار ہے۔ اس پر عمل کیاجائے۔ انہی کے ذریعے فیصلہ کیا جائے۔ انہی سے فیصلہ حاصل کیا جائے۔ ان کے خلاف کسی فیصلے اور قول کو مقدم نہ کیا جائے۔ توحید کی طرف دعوت کا اہتمام کیا جائے۔ جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہتمام کیا تھا۔ اور وہ یہ ہے کہ صرف اللہ وحدہ لا شریک لہ کو پکارا جائے۔ (اپنی حاجت برآری کیلئے) اس کے غیر کو نہ پکارا جائے۔ اور یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اس کے جو نام اور صفات ہیں وہ اس کی مخلوق کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتیں۔ وہ اپنے عرش پر بلند ہے۔ اور وہ اپنی سماعت، بصارت اور علم کے ذریعے اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔
4۔تمہارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے بنیادی اصول ہیں لہٰذا ان کے ساتھ وابستہ رہو (انہی مضبوطی کیساتھ تھامو)۔ تاکہ تمہارا سچے ایمانداروں اور توحید کے علمبرداروں میں شمار ہو۔ جس نے توحیدِ الٰہی سے محبت کی تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی۔ (جو شخص ان بنیادی اصولوں پر کاربند نہیں ہے اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت سچی نہیں ہے۔ چاہے وہ سالہاسال تک جشنِ میلاد مناتا رہے۔ مترجم)۔
أتی مَطْلُوبُ اِبْرَاھِیْمَ بِالْآیَاتِ وَالْحِکَمٖ
اِلٰہُ النَّاسِ اَرْسَلَہٗ اِلٰی الْعَربَآئِ وَالْعَجَمٖ
ابراہیم علیہ السلام کے مطلوب (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آیا اور حکمتوں کے ساتھ تشریف لائے۔ لوگوں کے معبود نے انہیں عرب و عجم کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔
وَکَانَ الْمُعْتَدُوْنَ عَلٰی شَفَا حُفَرٍ مِنَ النَّارٖ
فَاَنْقَذَھُمْ بِرَاَفَتِہٖ مِنَ الْاَحْزَانِ وَالْاَلَمٖ
زیادتی کرنے والے آگے کے گڑھوں کے کنارے پر کھڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شفقت سے انہیں غم و آلام سے نجات دی۔
وَکَانُوْا آخِرِ الْاَقْوَامِ مَسْبُوْقِیْنَ فِی الْعَمَلٖ
بِعَبْثَۃَ رَحْمَۃِ الکَوْنَیْنِ سَبَقُوْا سَائِرَا الْاُمٰمٖ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب قوموں سے آخر میں آنے والے اور عمل میں پیچھے رہنے والے تھے۔ رحمت کونین کی بعثت کے بعد وہ تمام امتوں سے (اجر و شرف میں) آگے نکل گئے۔
تَمَنَّ الرُّسُلُ مُلْتِمَسِیْنَ بِالْاِقْبَالِ رُؤیَتَہٗ
فَطَارَ وَاَمَّھُمْ فِی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی مِنَ الْحَرَمٖ
رسولوں نے بیت المقدس میں پہلے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی آرزو کی۔ لہٰذا آپ