کتاب: شمع محمدی صلی اللہ علیہ وسلم - صفحہ 9
خلاف وہ کسی کی بات مانے اور حدیث کو چھوڑدے؟؎
اے تغافل پیشہ تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے
جو نظام دہر میں پیدا بھی ہے پنہاں بھی ہے
حدیث وفقہ کا فرق
فرمان قرآن ہے:
مرج البحرین یلتقیان،بینھما برزخ لا بیغیان
ترجمہ:’’دو سمندر ہیں ایک کھاری ایک میٹھا گو بظاہر ملے جلے ہوئے ہیں لیکن قدرت نے ان میں وہ حجاب اور آڑ رکھی ہے کہ نہ اس کا کھاری پانی اس کے میٹھے پانی کو بگاڑ سکے،نہ اس کا میٹھا پانی اس کے کھاری پانی میں مل سکے۔‘‘
میں نے مندرجہ بالا آیت اس لئے نقل کی ہے کہ قارئیں سمجھ لیں کہ جیسے دونوں سمندر کھاری اور میٹھا ہماری نگاہوں میں بہ ظاہر ملے جلے نظر آتے ہیں لیکن دراصل قدرت نے ایک کو ایک سے بالکل ہی الگ رکھا ہے ادہر سے ایک چلو پانی اگر آپ لیں تو میٹھا ہو گا اور ادہر سے لیں تو کڑوا ہو گا۔اسی طرح گو موجودہ فقہ و حدیث بظاہر خلط ملط نظر آئے لیکن فی الواقع اللہ نے ایک کو ایک سے بالک الگ رکھا ہے جو صرف ایک ہی مسئلہ پر غور کی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے۔؎
ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا
بس اک نگاہ پر ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا