کتاب: شمع محمدی صلی اللہ علیہ وسلم - صفحہ 26
بزرگوں کے ماننے تک تو دونوں جماعتیں متفق ہیں۔ہاں آگے چل کر فرق یہاں پڑتا ہے کہ بزرگوں کی جو روایتیں مروی ہیں،جو احکام انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمیں پہنچائے ہیں ان کا ماننا تو ہم پر ضرروری ہے لیکن جو قیاسات ان بزرگوں نے کیئے ہیں جو اجتہادات ان بزرگوں کے ہیں جو درایت ان حضرات کی ہے کیا وہ بھی ان کی روایت کی طرح سب کی سب تسلیم کر لی جائیں؟یا اس میں کوئی امتیاز ہے؟ اہلحدیث رائے کو دین نہیں سمجھتے جماعت اہلحدیث تو کہتی ہے کہ آئمہ کی درایت اور روایت ماننے کے اعتبار سے دو چیزیں ہیں درایت کا ماننا ضروری ہے اور درایت کا صحیح ہونا ضروری نہیں اس لئے اس کا ماننا بھی ضروری نہیں۔بلخصوص اس وقت تو اس درایت کا ماننا قطعاً حرام ہے جبکہ اس کے خلاف کوئی روایت مل جائے مقلد حضرات نے جو روش روایت کے متعلق رکھی تھی اسی پر وہ درایت میں بھی جم گئے اور جس بزرگ پر ان کی انتخاب کی نگاہ جم گئی اس کی ایک ایک فقہ کو،ایک ایک درایت کو،ایک ایک فہم کو،ایک ایک قیاس کو،اجتہاد کو،ایک ایک رائے کو،ماننا بھی انہوں نے ضروری قرار دیدیا،شدہ شدہ یہاں تک بھ نوبت پہنچی کہ فقہ شریف کی بڑی بڑی معتبر کتابوں میں تحریر فرما دیا گیا کہ۔؎ فلعنۃ ربنا اعداد ر مل علی من رد قول ابی حنیفۃ