کتاب: شمع محمدی صلی اللہ علیہ وسلم - صفحہ 22
سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ کی سمجھ کا معتبر نہ ہونا
مثلاً جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے کہ آپ نے فرمایا تھا یقینا بیت اللہ شریف میں جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ حدیبیہ والے سال کی بابت یہ پیشنگوئی ہے مگر حدیبیہ والے سال ایسا نہ ہو،بلکہ مکہ شریف سے اور بیت اللہ شریف سے مسلمان روک دیئے گئے اور انہیں مجبوراً واپس ہونا پڑا ثابت ہوا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بر حق ہے روایت عمر سچی ہے لیکن درایت عمر صحیح نہ تھی۔حدیث میں جو تھا وہ ہو کر رہا لیکن فہم عمر رضی اللہ عنہ پوری ہوکر نہ رہی یہ ہے بین فرق روایت اور درایت کا۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کی درایت معتبر نہیں
قرآن کریم میں سحری کے آخری وقت کی بابت الفاظ نازل ہوتے ہیں:
’’ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ ‘‘
ترجمہ:’’یہاں تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگہ سے ظاہر ہو جائے۔‘‘
اس سے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ سوت کا دھاگہ ہی مراد ہے،لیکن جب جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی غلط فہمی کو رفع کیا اور فرمایا اس سے مراد صبح صادق کا رات سے ظاہر ہونا ہے۔پس سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کی فہم مرا داللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تھی گو آیت درست،صحیح اور ایمان لانے کے لائق ہے۔پس روایت صحیح اور درایت غلط۔اور دونوں میں فرق ظاہر