کتاب: شمع محمدی صلی اللہ علیہ وسلم - صفحہ 21
سے ایک بھی نہیں جو ان پر عمل کرے۔دوستو!یاتو کہہ دو کہ ہم حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل نہیں کرتے یا آؤ ان پر بھی عمل شروع کردو پروردگار تو خوب دانا بینا ہے میری یہی غرض ہے کہ تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر مسلمان عامل ہو جائیں۔ الہٰی نالہ اخگر فشاں دے فغاں شعلہ ریزو خوں چکاں دے عنایت کر مجھے آتش ربانی کہ لب تک لاسکوں سوز نہانی دے اتنی گرمی سوز تکلم کہ ہو عرق عرق برق تبسم روایت اور درایت کا فرق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ‘‘ ترجمہ:’’ان کی زبردست خرابی ہے جو اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو اللہ تعالیٰ کی کتاب کے درجے پر مانتے ہیں۔‘‘ ہمارا ایمان ہمارا علم ہمیں مجبور کرتا ہے کہ روایت اور درایت کو دو الگ الگ چیزیں سمجھیں۔روایت میں جو بزرگ اعلیٰ پایہ کے صادق،امین،راست باز اور درست گو ہیں لازم نہیں کہ ان کی فہم و فراست،ادراک و درایت بھی ہر جگہ مثل روایت صحیح،اٹل،ناقابل انکاراور واجب التسلیم ہی ہو۔مثال کے طور پر کون ہے جو نہیں مانتا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جو روایت جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کریں جو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچائیں اس میں وہ یقینا اور قطعاً سچے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ روایت کی طرح ان کی درایت ہم پر واجب التعمیل نہیں بہت ممکن ہے کہ وہ درست نہ ہوں۔