کتاب: شمع محمدی صلی اللہ علیہ وسلم - صفحہ 13
اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ہمیں اپنے بعض بھائیوں سے یقینا یہ شکایت ہے کہ انہوں نے اماموں سے جو برتاؤ رکھا ہے وہ ان کے درجے سے بہت بڑھا ہوا ہے صاف لفظوں میں سنیئے!کہ اس برتاؤ کے لائق صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوتے ہیں۔’’صلٰوۃ اللّٰه وسلامہ علیہم ‘‘مثلاًیہ مان لینا کہ جو فلاں امام کہے گا میں تو اسے ہی سچا مانوں گا مجھے ان کے اس قول کے بعد کسی آیت قرآنی یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مطلقاً ضرورت نہیں میرا مذہب وہ ہے جو میرے امام نے فرما دیا۔میرا دین وہ ہے جو اس کا اجتہاد تھا میری نجات اسی میں ہے کہ اپنی عمر تقلید میں گزاردوں۔کبھی بھولے سے بھی یہ خیال دل میں نہ لاؤں کہ اس مسئلے میں اللہ کا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کیا ہے؟مجھے معاف رکھا جائے اگر میں کھلے لفظوں میں کہہ دوں کہ یہ تو امام ماننا نہیں بلکہ پیغمبر ماننا ہے اور ان کا درجہ حد سے بڑھا کہ نبوت کی کرسی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہٹا کر اس پر انہیں بٹھا دینا ہے جس طرح وہ بد اور بد سے بدتر جو امام کی امامت کا بھی قائل نہ ہو اسی طرح وہ کم از کم نیک تو نہیں کہا جا سکتا جو امام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ بٹھائے۔ جماعت اہلحدیث کی چاہت اس وقت ہم میں اور حنفی بھائیوں میں جو اختلاف ہے وہ اسی اصول کے سمجھ جانے اور سلجھا لینے سے حل ہو جاتا ہے۔اہلحدیث کھرے دل سے اماموں کی امامت کے قائل ہیں۔لیکن ہاں ان کی نبوت کے قائل نہیں۔دوسری جانب سے بھی گو لفظ تو یہی ہیں لیکن عمل یہ بتاتا ہے کہ ساری شرع کے لئے دینی دینوی کل امور کے لئے فقط امام کی ذات کو کافی مان لیا گیا ہے۔پاکی پلیدی سے لے کر اسلام و کفر تک کے کل احکام آئمہ کے اجتہاد پر موقوف مان لئے گئے ہیں۔یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم