کتاب: شیطانی وسوے - صفحہ 23
لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (23) قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ )( الاعراف: ۲۰ تا ۲۴)
’’پھر شیطان نے ان دونوں کے لیے وسوسہ ڈالا، تاکہ ان کے لیے ظاہر کر دے جو کچھ ان کی شرم گاہوں میں سے ان سے چھپایا گیا تھا۔ اور اس نے کہا تم دونوں کے رب نے تمھیں اس درخت سے منع نہیں کیا مگر اس لیے کہ کہیں تم دونوں فرشتے بن جائو، یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہو جائو۔اور اس نے دونوں سے قسم کھا کر کہا کہ بے شک میں تم دونوں کے لیے یقینا خیر خواہوں میں سے ہوں۔پس اس نے دونوں کو دھوکے سے نیچے اتار لیا، پھر جب دونوں نے اس درخت کو چکھا تو ان کے لیے ان کی شرمگاہیں ظاہر ہوگئیں اور دونوں جنت کے پتوں سے (لے لے کر) اپنے آپ پر چپکانے لگے ۔ ان دونوں کو ان کے رب نے آواز دی: کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا اور تم دونوں سے یہ نہیں کہا تھا کہ بے شک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے۔دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہو جائیں گے۔فرمایا:(یہاں سے ) اتر جائو، تمھارا بعض بعض کا دشمن ہے اور تمھارے لیے زمین میں ایک خاص وقت تک ایک ٹھکانا اور کچھ (زندگی کا) سامان ہے۔‘‘
ذرا غور کیجئے کہ شیطان نے کس قدر کوشش کی کہ ہمارے ماں باپ آدم وحوا کے دل میں جگہ حاصل کر لے اور وہ درخت کا پھل کھالیں، اس کے لیے اس نے جھوٹی قسمیں اٹھائیں اور خیر خواہی کا فریب دیا۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟
ان دونوں نے اس درخت کا پھل چکھا تو ان کی شرمگاہیں عریاں ہو گئیں اور وہ دونوں جنت کے پتوں سے ان کو چھپانے لگے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: