کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 99
ابتدا میں دونوں کے لیے ایک ہی بستر تھا۔ اس کی دلیل سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی وہ حدیث ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ ’’جب آپ کو حیض آجاتا تھا تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اپنے ساتھ سلاتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں ، جب میں اپنے اوپر تہہ بند کس لیتی۔ ان دنوں ہمارے پاس صرف ایک ہی بستر ہوتا تھا۔ جب اللہ عزوجل نے مجھے دوسرا بستر عطا کیاتو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ ہو جاتی۔[1]
کچھ وقت گزرنے کے بعد سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے گھر میں مزید تکیے بھی بنا لیے، وہ بیان کرتی ہیں :
’’میرے گھر تصویروں والا ایک کپڑا تھا، میں نے اسے اپنے گھر کے اندر ایک کونے میں لٹکایا ہوا تھا۔[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا: اے عائشہ! تم اسے میرے آگے سے ہٹا دو، میں نے اسے اُتار کر اس کے تکیے بنا لیے۔‘‘[3]
ان کے گھر میں چراغ نہیں تھا:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چراغ نہیں تھا۔ اس کی دلیل سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول ہے:
’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سوئی ہوئی تھی اور میرے دونوں پاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدے کی جگہ ہوتے تھے۔ جب آپ سجدہ کرنے لگتے تو مجھے دبا دیتے تو میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی۔ جب آپ کھڑے ہو جاتے تو میں پھر دراز کر لیتی۔ وہ فرماتی ہیں : اس زمانے میں گھروں میں چراغ نہ ہوتے تھے۔‘‘ [4]
ایک رات سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف بکری کی دستی کا گوشت بھیجا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے پکڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کاٹا۔وہ کہتی ہیں یہ کام چراغ کے بغیر ہوا۔ پو چھا گیا: اے ام المؤمنین! چراغ کے بغیر کیسے ممکن ہوا؟ تو انھوں نے کہا: ’’اگر چراغ کے لیے تیل ہوتا تو ہم اسے (بطورِ غذا) استعمال کرلیتے۔‘‘ [5]
[1] مسند احمد، ج ۶، ص: ۱۹۱، حدیث: ۲۴۶۵۰۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ’’التمھید ج ۲، ص: ۱۶۸‘‘ میں کہا: ہمارے علم کے مطابق یہ حدیث ابن لہیہ سے مرو ی ہے اور وہ ضعیف ہے۔
[2] السَّہْوۃ: .... گھرکے فرش میں گڑھا سا ہوتا تھا جس میں گھر کا کچھ سامان رکھ دیا جاتا جیسے صندوقچہ سا ہو اور یہ بھی کہا گیا: ریک یا الماری کی طرح کی کوئی چیز جس میں سامان رکھا جاتا ہے۔ (عمدۃ القاری للعینی ، ج ۱۲، ص: ۴۰)
[3] صحیح بخاری: ۵۹۵۹۔ صحیح مسلم: ۲۱۰۷ اور متن بھی اسی کا ہے۔
[4] صحیح بخاری: ۳۸۲۔ صحیح مسلم: ۵۱۲۔
[5] مسند احمد، ج۶، ص: ۲۱۷، حدیث: ۲۵۸۶۷۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’صحیح الترغیب والترہیب ، حدیث: ۳۲۷۶ ‘‘ میں صحیح کہا ہے۔ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے ’’مجمع الزوائد ، ج ۱۰، ص: ۳۲۴ ‘‘ میں کہا:اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں ۔