کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 98
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رفاقت کتنا عرصہ رہی؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں آٹھ سال اور تقریباً پانچ ماہ بسر کیے۔[1] جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ انھی سے روایت ہے کہ ’’ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ شادی کی تو و ہ چھ سال کی تھی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی تو ان کی عمر نو سال تھی۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نو برس تک رہیں ۔ ایک روایت میں ہے :’’ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو وہ اٹھارہ سال کی تھیں ۔‘‘[2] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ماہِ شوال سال کے بارہ مہینوں سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے محبوب ترین مہینہ شوال کا تھا۔ کیونکہ اس مبارک ماہ سے ان کی محبوب ترین یادیں وابستہ تھیں ۔ وہ خود فرماتی ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہِ شوال میں میرے ساتھ شادی کی اور ماہ شوال میں ہی آپ نے میرے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کیے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کونسی بیوی آپ کے ہاں مجھ سے زیادہ خوش نصیب تھی؟[3] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات بہت پسند تھی کہ وہ اپنی قریبی عورتوں کی رخصتی ماہِ شوال میں کریں ۔‘‘[4] دوسرا نکتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گزر بسر پر ایک طائرانہ نظر گھر کا منظر: سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے حجرے کے سامان کی تفصیل یوں بتاتی ہیں کہ ’’جس بستر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے تھے وہ رنگی ہوئی کھال کا تھا[5]ا ور اس کے اندر کھجور کے چھلکے بھرے ہوئے تھے۔[6]
[1] الاجابۃ لا یراد ما استدرکتہ عائشۃ علی الصحابۃ للزرکشی، ص: ۰۳۹۔ زواج السیّدہ عائشہ و مشروعیۃ الزواج المبکر لخلیل ملا خاطر، ص: ۳۹۔ [2] صحیح بخاری: ۵۱۳۳۔ صحیح مسلم: ۱۴۲۲۔ [3] صحیح مسلم: ۱۴۲۳۔ [4] عائشہ رضی اللّٰہ عنہا معلمۃ الرجال والاجیال،لمحمد علی قطب، ص: ۲۳۔ [5] الَادَم: .... اسم جمع ہے۔ ادیم اس کھال کو کہتے ہیں جس کی دباغت مکمل ہو جائے۔ ( المغرب فی ترتیب المعرب للمطرزی، ج ۱، ص: ۳۳۔ تاج العروس للزبیدی، ج ۳۱، ص: ۱۹۲۔) [6] صحیح مسلم: ۲۰۸۲۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا: اس میں تکیہ ، بستر اور سرہانے بنانے اور ان پر ٹیک لگانے کا جواز ہے اور چمڑے کا استعمال بھی جائز ہے۔ (اکمال المسلم شرح صحیح مسلم، ج ۶، ص: ۳۰۳)