کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 97
آپ نے باری باری اپنے گھر والوں کو دیا اور میں اس وقت نوبرس کی تھی۔‘‘ [1] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مہر کتنا تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بیوی کا علیحدہ علیحدہ مہر کہیں بھی مروی نہیں ۔ البتہ مجموعی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں کے مہر کا تذکرہ ملتا ہے۔ (یا سیّدہ اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کا مہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بادشاہ حبشہ نجاشی رحمہ اللہ نے ادا کیا تھا۔ جس کی مقدار چار ہزار درہم تھی۔ [مترجم]) سیّدنا ابوسلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے: ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنا مہر اداکیا؟ انھوں نے جواب دیا: آپ کی تمام بیویوں کا مہر بارہ اوقیہ سے کچھ اوپر تھا۔ پھر خود ہی کہا: تجھے معلوم ہے کہ النّشُّ کیا ہے؟میں نے نفی میں جواب دیا۔ انھوں نے کہا: نصف اوقیہ کو کہتے ہیں ۔ اس طرح آپ نے پانچ سو درہم مہر ادا کیا۔‘‘ [2] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے علم میں نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں کیجملہ نکاح بارہ اوقیہ سے زائد پر کیے ہوں ۔‘‘[3]
[1] مسند احمد: ج۶، ص: ۲۱۰، حدیث: ۲۵۸۱۰۔ الطبرانی: ۲۳؍۲۳، حدیث: ۵۷۔ الحاکم: ج۲، ص: ۱۸۱۔ البیہقی ، ج۷، ص: ۱۲۹، حدیث: ۱۴۱۱۸۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے کہا: یہ صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ اور شیخین نے اسے روایت نہیں کیا۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ ، ج۳، ص: ۱۲۹ میں کہا: یہ سیاق مرسل کی طرح ہے۔ لیکن یہ روایت متصل ہے۔ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد ، ج ۹، ص ۲۲۸ میں کہا: اس کی اکثر روایات مرسل ہیں ۔ اس کی سند میں ایک راوی محمدبن عمرو بن علقمہ ہے اسے متعدد محدثین نے ثقہ کہا ہے۔ اس کے دیگر راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں ۔ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری ، ج ۷، ص: ۲۶۶ میں اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ [2] صحیح مسلم: ۱۴۲۶۔ [3] ابوداؤد: ۲۱۰۶۔ ترمذی: ۱۱۱۴۔ اسی کی روایت ہے۔ نسائی:ج ۶، ص: ۱۱۷۔ ابن ماجہ: ۱۵۴۴۔ مسند احمد، ج ۱، ص: ۴۰، حدیث: ۲۸۵۔ دارمی ، ج ۲، ص: ۱۹۰، حدیث: ۲۲۰۰۔ طیالسی، ج ۱، ص: ۴۶۔ ابن حبان، ج ۱۰، ص: ۴۸۰، حدیث: ۴۶۲۰۔ المعجم الاوسط، ج ۱، ص: ۱۷۹ ، حدیث: ۵۷۰۔ حاکم، ج ۲، ص: ۱۹۱۔ بیہقی ، ج ۷ ، ص: ۲۳۴ ، حدیث: ۱۴۷۳۶۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔ احمد شاکر نے مسند احمد کی تحقیق میں اس کی اسناد کو صحیح کہا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح سنن ترمذی، حدیث: ۱۱۱۴ ، میں اسے صحیح کہا ہے۔