کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 95
بقول خولہ رضی اللہ عنہا میں واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ کو پورا واقعہ بتایا تو آپ نے فرمایا: تم واپس ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور انھیں کہو کہ آپ میرے اسلامی بھائی ہو، اور میں آپ کا بھائی ہوں ۔ آپ کی بیٹی میرے لیے مناسب ہے ۔ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور انھیں یہ بات بتلائی۔ انھوں نے خولہ رضی اللہ عنہا سے کہا: تم جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے پاس لے آؤ۔ آپ ان کے پاس آئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیٹی عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کر دیا۔ اس و قت سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال کی تھی۔‘‘ [1] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی رخصتی کے متعلق خود بیان کرتی ہیں ، اور یہ کہ انھیں ان کی والدہ محترمہ نے کس طرح تیار کیا۔ وہ کہتی ہیں :’’میری والدہ محترمہ مجھے خوب کھلاتی پلاتیں ، وہ چاہتی تھیں میں صحت مند ہو جاؤں ، تاکہ وہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیں ۔ لیکن ان کی یہ تمنا پوری ہوتی نظر نہ آئی، بالآخر میں نے تازہ کھجوروں کے ساتھ کھیرا یا ککڑی[2]ملا کر کھائیں تو خوب صحت مند ہو گئی۔‘‘[3] جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لائیں تو ان کے کھلونے ان کے ساتھ تھے۔[4] رخصتی کی پہلی رات رخصتی والی رات میں سیّدہ اسماء بنت یزید اور ان کی سہیلیوں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تیار کرنے کی ذمہ داری لی۔ سیّدہ اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بناؤ سنگھار کیا۔[5] پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی رونمائی کی دعوت دی۔[6]
[1] احمد: ج۶، ص: ۲۱۰۔ الطبرانی، ج ۲۳، ص: ۲۳۔ الحاکم، ج ۲، ص: ۱۸۱۔ بیہقی ج ۷، ص: ۱۲۹ ، حدیث: ۱۴۱۱۸۔ امام حاکم نے کہا: یہ مسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن شیخین نے اسے روایت نہیں کیا۔ ’’البدایہ والنہایہ‘‘میں ابن کثیر رحمہ اللہ نے ج ۳، ص: ۱۲۹ پر کہا یہ سیاق مرسل کی طرح ہے لیکن رو ایت متصل ہے۔ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے ’’مجمع الزوائد ، ج ۹، ص: ۲۲۸ میں کہا: اس کی اکثر رو ایات مرسل ہیں ۔ اس کی سندمیں محمد بن عمرو بن علقمہ کی توثیق اکثر محدثین نے کی ہے اور اس سند کے دیگر راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’فتح الباری ، ج ۷ ، ص: ۲۶۶‘‘ میں اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ [2] القِثَّاء:....کھیرا، اور ایک قول کے مطابق کھیرے کی طرح ایک چیز کو کہتے ہیں ۔ (تہذیب اللغۃ الازہری، ج ۹، ص: ۲۰۵۔ الصحاح للجوہری، ج۱، ص: ۶۴۔ لسان العرب لابن منظور، ج۱۵، ص: ۱۷۱۔) [3] ابوداؤد: ۳۹۰۳۔ ابن ماجہ: ۲۷۰۱۔ المعجم الاوسط للطبرانی، ج۵،ص: ۲۶۲، حدیث: ۵۲۶۴۔ بیہقی، ج۷،ص: ۲۵۴، حدیث: ۱۴۸۶۲۔ اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ابن ماجہ میں صحیح کہا ہے۔ [4] صحیح مسلم: ۱۴۲۲۔ [5] قَیَّنْتُ:....میں نے زیب وزینت کروائی۔ (النہایۃ فی غریب الحدیث والأثر لابن الاثیر، ج۴، ص: ۱۳۵) [6] لجلوتہا:....تاکہ اسے کھلے چہرے میں دیکھ سکیں ۔ (جمہرۃ اللغۃ لابن درید ، ج ۱،ص: ۶۳۔ الصحاح للجوہری ، ج ۶، ص: ۲۳۰۴۔ لسان العرب لابن المنظور ، ج ۱۴، ص: ۱۵۱)