کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 84
وہاں ان کی بیٹی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا لیٹی ہوئی تھیں ، جنھیں بخار تھا۔ میں نے دیکھا، ان کے والد نے ان کا رخسار چوم کر پوچھا: اے میری پیاری بیٹی! تیرا کیا حال ہے؟‘‘ [1]
جب سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنی بیٹی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یوں مخاطب کیا:
’’اے میری بیٹی! مجھے اپنے بعد لوگوں میں تجھ سے زیادہ کسی کے متعلق یہ آرزو نہیں کہ وہ مالدار بن کر رہے اور نہ تجھ سے بڑھ کر کسی کے فقیر ہونے کا مجھے اندیشہ ہے۔‘‘ [2]
اسی طرح انھوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے مال سے بیس و سق[3] کھجو ریں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہدیہ کر دیں ۔[4]
سیّدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی اولاد کی تربیت کے لیے پر عزم تھے اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے باپ سے مرعوب رہتی اور ان کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش کرتی تھی۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے بعد بھی ان کا یہی حال رہا۔
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ [5]سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی چیز لاتے تو تمام کی تمام ایک ہی بیوی کو نہ دے دیتے بلکہ وہ چیز آپ اپنی نو بیویوں میں برابر تقسیم کرتے۔ چونکہ تمام ازواج مطہرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیوی کے پاس رات کو اکٹھی ہوتی تھیں ، جہاں آپ
[1] صحیح بخاری: ۳۹۱۷۔
[2] اسے امام مالک نے ’’مؤطا ج ۴، ص ۱۰۸۹‘‘ .... عبدالرزاق نے مصنف میں ج ۹، ص: ۱۰۱ اور بیہقی نے ج ۶، ص: ۱۶۹ پر حدیث نمبر ۱۲۲۹۸ میں روایت کیا ہے۔ جب کہ اس کی سند کو ابن کثیر رحمہ اللہ نے ’’ ارشاد الفقیہ ، ج ۲ ، ص: ۱۰۴ پر صحیح کہا ہے۔ ابن الملقن نے ’’البدر المنیر ، ج ۷ ، ص: ۱۴۴ ‘‘ پر اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے ’’ ارواء الغلیل ، ج ۶، ص: ۶۱ ‘‘ پر اسے صحیح کہا ہے۔
[3] وسق:.... ۶۰ صاع کے برابر وزن اور صاع تقریباً ڈھائی کلو کے برابر ہوتا ہے۔ (النہایۃ فی غریب الحدیث ، ج ۱، ص: ۴۴ اور ج ۲، ص: ۳۸۰۔)
[4] اسے امام مالک رحمہ اللہ نے المؤطا ص ۷۵۲ اور امام عبدالرزاق نے مصنف کی ج ۹، ص ۱۰۱ پر روایت کیا ہے۔
[5] سیّدنا انس بن مالک بن نضر ابو حمزہ انصاری، خزرجی رضی اللہ عنہ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص تھے اور انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو کثرت سے روایت کیا۔ وہ سب صحابہ کے بعد بصرہ میں ۹۲ھ میں فوت ہوئے۔ (الاستیعاب، ج ۱، ص: ۳۵۔ الاصابۃ ، ج ۱ ، ص: ۱۲۶)