کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 83
تھیں ۔ ہجرتِ نبویہ کے اسرار وحوادث انھیں خوب یاد تھے۔ [1] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنے والد کے ہاں مقام و مرتبہ اس مقام پر یہ بات نہایت توجہ طلب ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا او ر ان کے والد کے درمیان محبت پدری کے ساتھ ساتھ باہمی احترام و اعتماد کے تعلقات قائم تھے۔ چونکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے والد محترم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہترین صحابی شمار کرتی تھیں اور وہ اپنے والد محترم کی اس نصرت و صحابیت کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتیں جو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور کرتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کے ساتھ اپنی نسبت کو عزت و اکرام کی نظر سے دیکھتی تھیں اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی اپنی بیٹی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہونہار ، لاڈلی بیوی اور ام المؤمنین کے طور پر دیکھتے تھے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث و فہم حدیث کے متعلق سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی معلومات کو سراہا۔ اسی لیے سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی کی خصوصی قدر کرتے، ان پر اعتماد کرتے اور بیشتر دینی معاملات میں ان کی رائے لیتے اور اکثر اوقات ان کی رائے کو عملی جامہ پہناتے،[2]بلکہ ان سے احادیث بھی روایت کرتے۔ [3] سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شفقت پدری وہ اپنی بیٹی کے ساتھ بے حد شفقت اور ہمدردی کے ساتھ پیش آتے۔ وہ انھیں کہتے رہتے: ’’تمھیں جس چیز کی ضرو رت ہو مجھ سے طلب کر لیا کرو ۔‘‘ [4] سیّدنا براء رضی اللہ عنہ [5]سے روایت ہے: ’’ ایک بار میں سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے اہل خانہ کے پاس گیا۔ اچانک دیکھا کہ
[1] سیرۃ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا للندوی، ص ۴۳۔ [2] اس کی مثال کتاب کے آئندہ صفحات پر آئے گی۔ [3] الاجابۃلایراد مااستدرکتہ عائشۃ علی الصحابۃ للزرکشی، ص: ۷۵۔ [4] الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ج ۸، ص ۱۷۹۔ [5] سیّدنا براء بن عازب بن حارث: ابو عمارہ اوسی المدنی، صحابی ابن صحابی رضی ا للہ عنہما ، بڑے بڑے فقہا صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پندرہ غزوات میں شریک ہوئے۔ بیشتر فتوحات جیسے کہ’’ فتح الری‘‘ وغیرہ میں شریک رہے۔ ۷۲ھ میں راہیٔ فردوس ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج ۵، ص ۱۹۱۔ تہذیب التہذیب، ج ۴ ، ص: ۱۱)