کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 81
نے کہا: ’’بے شک آپ جیسا نہ تو اپنا وطن چھوڑتا ہے نہ اسے جلا وطن کیا جاتا ہے۔ کیونکہ آپ بے سہاروں کے سہارا ہیں اور صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ ضعیفوں [1]اور محتاجوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں ، آپ مہمان نواز ہیں ، مصیبت زدہ کی مدد کرتے ہیں اور آپ میری پناہ میں ہیں ۔ لہٰذا آپ واپس جائیں اور اپنے ہی شہر میں اپنے رب کی عبادت کریں ۔‘‘ [2]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پرورش مبارک خاندان میں ہوئی۔ وہ اپنی ہم عمر بچیوں کی طرح ہی کھیلنے کی دلدادہ تھیں ۔ جب وہ نو سال کی ہو گئیں تا حال ان کی سہییاں اور ہم جولیاں تھیں جن کے ساتھ وہ کھیلتی تھیں ۔ ان کا ایک پنگھوڑا بھی تھا جس پر وہ جھولا جھولتیں ۔ خود سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے بیان کیا کہ وہ کس طرح پنگھوڑے پر جھولے جھولتی سسرال جا پہنچیں ۔ وہ کہتی ہیں :
’’میں پنگھوڑے پر جھول رہی تھی کہ میری ماں ام رومان رضی اللہ عنہا میرے پاس آئیں ۔ میرے ساتھ میری سہیلیاں بھی تھیں ۔ انھو ں نے مجھے زور سے پکارا۔ میں ان کے پاس چلی گئی۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ مجھے کیا کہنا چاہتی ہیں ۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھر کے دروازے پر لا کھڑا کیا۔ میں ہانپ رہی تھی[3]یا زور زور سے روتے ہوئے ہائیں بھر رہی تھی۔
’’جب میرا سانس تھم گیا اور میں خاموش ہو گئی۔ تب میری والدہ مجھے گھر کے اندر لے گئی۔ وہاں میں نے کچھ انصاری عورتوں کو دیکھا۔ وہ کہنے لگیں :
’’خیر و برکت کے ساتھ، سعادت مند اور خو ش نصیب رہو۔ ‘‘[4]
[1] الکلُّ :.... ہر اس بوجھ کو کہتے ہیں جو اُٹھانا پڑے۔ نیز الکلُّ تنگدستو ں اور کمزوروں پر بھی بولا جاتا ہے۔ (النہایۃ فی غریب الحدیث والأثر لابن الاثیر ، ج ۴، ص: ۱۹۸۔ فتح الباری لابن حجر، ج۱، ص ۱۸۰۔ تاج العروس للزبیدی ۔ مادہ: ک ۔ ل۔ل)
[2] صحیح بخاری، حدیث: ۲۲۹۷۔
[3] ہَہْ ہَہْ:.... اس کے دو معنی کیے گئے ہیں : (۱)پھولے ہوئے سانس کے ساتھ ہانپنا۔ (۲)زور زور سے روتے ہوئے ہَہْ ہَہْ کی آواز نکالنا۔ (مشارق الانوار للقاضی عیاض، ج۲ ، ص: ۲۷۲۔ غریب الحدیث لابن الجوزی ، ج ۲ ، ص: ۵۰۶۔ شرح مسلم للنووی ، ج۹ ، ص: ۲۰۷)
[4] علی خیر طائر :....یعنی سعادت مندی تیرا انتظار کر رہی ہے ، یا تم بہت خوش قسمت ہو۔ عربوں کے ہاں یہ جملہ نیک فالی کے موقع پر بولا جاتا ہے۔(مشارق الانوار ج ۲، ص: ۲۷۲۔ فتح الباری لابن حجر، ج۷ ، ص: ۲۲۴۔ شرح مسلم للسیوطی، ج ۴، ص: ۲۷۔ بخاری: ۳۸۹۴۔ مسلم: ۱۴۲۲)۔