کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 76
’’وہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بالائی وادی (آج کل اسے باب العوالی کہتے ہیں ) میں آتا ، اس کے ساتھ عبید بن عمیر[1] اور مسور بن مخرمہ اور متعدد لوگ ہوتے۔[2] تو انھیں عائشہ رضی اللہ عنہا کا آزادہ کردہ غلام ابو عمرو امامت کراتا۔ ابو عمرو اس وقت تک غلام تھا ، ابھی آزاد نہیں ہوا تھا۔‘‘ [3] ۶۔لیلٰي:.... ایک روایت میں ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک آزاد کردہ خادمہ لیلیٰ نامی تھی۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ بواسطہ منہال بن عبید اللہ بواسطہ ایک آدمی لیلیٰ سے روایت کی جو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ تھیں ۔ انھوں نے کہا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا میں گئے، پھر میں گئی تو وہاں کچھ نہ دیکھا اور میں نے کستوری کی خوشبو پائی۔ چونکہ میں نے کہا: اے اے اللہ کے رسول! مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنّ الْاَرْضَ أُمِرَتْ أَنْ تَکْفِیَہٗ مِنَّا مَعَاشِرَ الْأَنْبِیَائِ۔))[4] ’’بے شک زمین کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم انبیا کے گروہ کی طرف سے اس کے لیے وہ کافی ہو جائے۔‘‘ ٭٭٭٭
[1] یہ عبید بن عمیر بن قتادہ ابو عاصم مکی تھے۔ اہل مکہ کے قصہ گو تھے۔ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں پیدا ہوئے۔ یہ عالم، واعظ اور کبار تابعین میں سے تھے اور ثقہ تھے۔ سیّدنا ابن عمر رضی ا للہ عنہما ان کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے۔ یہ ۶۸ھ میں فوت ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء ، ج ۴، ص: ۱۵۶۔ تہذیب التہذیب، ج ۴، ص: ۴۸) [2] یہ لوگ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس مختلف مسائل پوچھنے اور فتویٰ لینے جاتے تھے۔ [3] اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے ’’المسند‘‘ میں نمبر ۲۲۴ پر روایت کیا ۔عبدالرزاق نے’’مصنّف‘‘ میں ج ۲، ص ۳۹۳ اور ابن ابی شیبہ نے ج ۲ ، ص ۲۱۸ پر، بیہقی نے ج ۳، ص ۸۸ پر حدیث نمبر ۵۳۲۵۔ امام نووی نے ’’الخلاصہ‘‘ ج ۲، ص ۶۹۳ پر لکھا اس کی سند صحیح یا حسن ہے۔ [4] المستدرک، ج ۴، ص: ۸۱۔ امام وادعی نے کہا: یہ روایت منقطع ہے۔ ہمیں منہال بن عبید اللہ کا حال معلوم نہیں ۔ المستدرک ، ج ۴ ، ص: ۱۶۶۔