کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 75
ان کا مطلب اس سے حیض سے مکمل طہارت ہوتا۔ ‘‘[1]
۴۔ابو یونس [2] :.... قعقاع بن حکیم ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ ابو یونس سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا: ’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے اس کے لیے ایک مصحف (قرآن کریم) لکھنے کا حکم دیا اور کہا کہ جب تم اس آیت پر پہنچو تو مجھے اطلاع دینا:
﴿ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلّٰهِ قَانِتِينَ﴾ (البقرہ: ۲۳۸)
’’سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی ۔‘‘
جب میں نے انھیں بتایا توانھوں نے کہا: ((وَصَلَاۃُ الْعَصْرِ)) ’’اور عصر کی نماز۔‘‘ میں نے یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں ۔ [3]
۵۔ذکوان[4]:.... ان کی کنیت ابوعمرو ہے۔ ماہِ رمضان میں یہی اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو مصحف سے امامت کرواتے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس عنوان سے باب قائم کیا ہے:
’’غلام اور آزاد کردہ کی امامت کا بیان اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا غلام ذکوان مصحف سے ان کی امامت کرتا تھا۔‘‘ [5]
اس کے حوالے سے عبداللہ بن ابی ملیکہ[6] کی مشہور روایت ہے کہ
[1] اسے امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطامیں روایت کیا، ج ۲، ص: ۸۰، حدیث: ۱۸۹۔ بیہقی ، ج ۱ ، ص : ۳۳۵۔، حدیث: ۱۶۵۰۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے معلق ذکر کیا ، لیکن انداز بالجزم ہے۔ حدیث: ۳۲۰ سے پہلے اسے امام نووی رحمہ اللہ نے ’’الخلاصہ‘‘ میں صحیح کہا ہے، ج ۱ ، ص: ۲۳۳ اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے ’’ارواء الغلیل نمبر ۱۹۸‘‘ میں صحیح کہا ہے۔
[2] یہ ابو یونس مدنی ہیں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ اور ثقہ راوی ہیں ۔ (تہذیب التہذیب لابن حجر: ج ۶، ص: ۴۹۵۔)
[3] صحیح مسلم:۶۲۹۔
[4] ذکوان ابو عمرو مدنی ہیں ۔ ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزادہ کردہ ہیں ، وہ اپنے عہد میں فصیح ترین قاریٔ قرآن تھے۔ واقعہ الحرۃ ۶۳ھ میں شہید ہوئے۔
[5] اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے معلق روایت کیا اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’تغلیق التعلیق‘‘ کی ج ۲، ص ۲۹۰ پر یہ روایت موصول تحریر کی ہے اور اس کے آخر میں کہا: ’’ یہ اثر صحیح ہے۔‘‘
[6] یہ عبداللہ بن عبید اللہ بن ابی ملیکہ ابوبکر مکی ہیں ۔ الامام ، الحجہ، الحافظ اور شیخ الحرم تھے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یا اس سے پہلے پیدا ہوئے۔ یہ عالم ، مفتی، حدیث کے راوی اور متقن تھے۔ ابن زبیر کی طرف سے منصب قضا اور اذان کے لیے مقرر ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج ۵، ص ۸۸۔ تہذیب التہذیب ، ج ۳، ص ۱۹۹۔)