کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 73
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بے شک ابوالقعیس کے بھائی افلح نے اجازت طلب کی تو میں نے آپ سے پوچھنے تک اسے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور تجھے کس چیز نے اپنے چچا کو اجازت دینے سے منع کیا۔ میں نے کہا: اے رسو ل اللہ! مجھے مرد نے تو دودھ نہیں پلایا مجھے تو ابوالقعیس کی بیوی نے دودھ پلایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اسے اجازت دے دے کیونکہ وہ تیرا چچا ہے، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں ۔‘‘ [1] خدام اور خادمائیں ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعدد خدام اور خادمائیں تھیں اور آپ ان سب کے ساتھ احسان مندانہ برتاؤ کرتی تھیں اور سب کی عزت و تکریم کرتیں ۔ ۱۔بریرۃ: [2]....صحیحین میں اس کے متعلق مشہو ر حدیث مروی ہے۔ صحیح بخاری [3]کا متن کچھ اس طرح ہے: ((أَنَّ عَائِشَۃَ أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِیَ بَرِیرَۃَ فَأَبَی مَوَالِیہَا إِلَّا أَنْ یَشْتَرِطُوا الْوَلَائَ فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ صلي اللّٰه عليه وسلم فَقَالَ: اشْتَرِیہَا وَأَعْتِقِیہَا ، فَإِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ۔ وَأُتِیَ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم بِلَحْمٍ ، فَقِیلَ إِنَّ ہَذَا مَا تُصُدِّقَ بِہِ عَلَی بَرِیرَۃَ، فَقَالَ: ہُوَ لَہَا صَدَقَۃٌ وَلَنَا ہَدِیَّۃٌ۔)) [4] ’’یہ کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بریرہ کو خریدنا چاہا تو اس کے مالکوں نے یہ شرط رکھی کہ اس کا سامان ہمیں ملے گا تو ہم فروخت کر دیں گے۔ بصورتِ دیگر ہم اسے فروخت نہیں کرتے۔
[1] تَرِبَتْ یَمِیْنُکَ:.... جب آدمی محتاج ہو جائے یعنی اس کے ہاتھوں میں مٹی آجائے ۔ عربوں میں اس سے مراد بددعا نہیں ہوتی، یہ صرف ایک محاورہ ہے۔ (النہایۃ ، ج۱ ، ص: ۱۸۴۔ متفق علیہ: بخاری : ۴۷۹۶۔ مسلم: ۱۴۴۵)۔ [2] سیّدہ عائشہ بنت ابی بکر صدیق کی آزاد کردہ خادمہ تھی رضی اللہ عنہا ۔ اس کے معاملے میں مشہور حدیث: غلام یا لونڈی کا سامان اسے آزاد کرنے والے کی ملکیت ہے ، مروی ہے۔ یہ اپنے خاوند سے پہلے آزاد ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا، پھر یہ سنت بن گئی۔ (الاستیعاب، ج۲، ص: ۷۹۔ الاصابۃ ، ج۷ ، ص: ۵۳۵) [3] محمد بن اسماعیل بن ابراہیم ابو عبداللہ بخاری ، امیر و امام الحدیث ، حافظ اور اپنے زمانے کے(بلکہ رہتی دنیا تک) امام المحدثین ہیں ۔ ۱۹۴ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کی چند اہم تصنیفات: کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب ’’الجامع الصحیح‘‘، ’’التاریخ الکبیر‘‘ وغیرہ جن کا مثیل کوئی پہلے نہیں گزرا۔ وہ ۲۵۶ ھ میں فوت ہوئے۔ (جزء فیہ ترجمۃ البخاری للذہبی ، تہذیب التہذیب، ج ۵، ص: ۳۳۔) [4] متفق علیہ: صحیح بخاری: ۴۵۶۔ صحیح مسلم: ۱۵۰۴۔