کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 67
سیّدنا ابن عباس رضی ا للہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((مَنْ کَانَ لَہٗ فَرَطَانِ مِنْ أُمَّتِيْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔ فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: بِأَبِیْ، فَمَنْ کَانَ لَہٗ فَرَطٌ؟ فَقَالَ: وَ مَنْ کَانَ لَہٗ فَرَطٌ یَا مُوَفِّقَۃُ، قَالَتْ: فَمَنْ لَمْ یَکُنْ لَہٗ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِکَ؟ قَالَ: فَأَنَا فَرَطُ أُمَّتِيْ، لَمْ یُصَابُوْا بِمِثْلِیْ)) [1]
’’میری اُمت میں سے جس کے (فرطان) [2]دو بچے فوت ہو جائیں وہ جنت میں جائے گا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرا باپ قربان جائے جس کا ایک بچہ فوت ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور جس کا ایک بچہ فوت ہو گیا ( وہ بھی جنت میں جائے گا)۔ اے توفیق دی گئی! تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ کی اُمت سے جس کا کوئی بچہ پہلے فوت نہ ہوا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو گویا میں اپنی اُمت کا پہلے جا کر انتظام کرنے والا ہوں ، کیونکہ مجھ جیسے مصائب کسی کو نہیں پہنچے۔‘‘
یہ تمام القابات ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فضائل پر دلالت کرتے ہیں ، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے اور ان کو جو القابات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کیے وہ آپ کی ان کے ساتھ شدید محبت کی دلیل ہیں اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اہمیت اور اہتمام کا ثبوت ہیں ۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اختصار کے ساتھ اسے یوں پکارتے: ’’ یا عائش!‘‘ اے عائش۔ اور عربوں کے ہاں یہ عادت ہے کہ وہ لاڈ پیار سے اس طرح بلاتے ہیں ۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یَا عَائِشُ، ہٰذَا جِبْرِیْلُ یُقْرِئُکِ السَّلَامُ۔ قُلْتُ: وَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ۔ قَالَتْ: وَ ہُوَ یَرٰی مَا لَا نَرٰی)) [3]
[1] اسے ترمذی (۱۰۶۲)، احمد ، ج ۱، ص ۳۳۴، حدیث: ۳۰۲۸۔ ابو یعلی ، ج ۵، ص : ۱۳۸، حدیث: ۲۷۵۲۔ طبرانی، ج ۱۲، ، ص: ۱۹۷، حدیث : ۱۲۸۸۰ اور بیہقی نے ج ۴، ص: ۶۸، حدیث: ۷۳۹۸ میں رو ایت کیا۔ اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے ’’ضعیف الجامع: ۵۸۰۱‘‘ میں ضعیف کہا اور مسند احمد کی تحقیق کرتے ہوئے احمد شاکر نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے: (ج ۵، ص ۳۹)۔
[2] فرطان:....یعنی ایسے دو بچے جو بلوغت سے پہلے ہی وفات پا جائیں ۔ جب کوئی آگے چلا جائے تو اسے فرط کہتے ہیں اور اسم فاعل فارط ہے۔ حدیث میں فرط سے مراد وہ بچہ ہے جو والدین کی زندگی میں ہی فوت ہو جائے وہ آگے جا کر دارِ آخرت میں بلکہ جنت میں والدین کے لیے ضیافت اور دار الضیافہ تیار کروائے گا۔ جیسے قافلے سے پہلے رہائش کے حصول کے لیے قافلے کا سرکردہ فرد پہلے جاتا ہے۔ وہ قافلے والوں کی ضروریات مثلاً پانی، چراگاہ وغیرہ کا بندوبست کرتا ہے۔ (مرعاۃ المفاتیح للمبارکفوری،ج ۵، ص: ۴۷۶)
[3] متفق علیہ: صحیح بخاری: ۶۲۰۱۔ صحیح مسلم: ۲۴۴۷۔