کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 66
’’بے شک یہ کہا گیا کہ ہر وہ حدیث جس میں ’’یا حمیراء‘‘ کے الفاظ ہوں وہ غیر صحیح ہے۔‘‘[1]
بعض علماء جیسے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ [2]نے تو یہ بھی کہا ہے کہ ہر وہ حدیث جس میں ’’یا حمیراء‘‘ یعنی اے حمیرا! کے الفاظ ہوتے ہیں وہ موضوع ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے واضح طور پر لکھا: ہر وہ حدیث جس میں ’’یا حمیرا‘‘ کے الفاظ ہوں یا حمیرا کا تذکرہ ہو، وہ من گھڑت جھوٹ ہے۔ جیسے: اے حمیرا ! تو مٹی نہ کھا۔ کیونکہ اس سے فلاں فلاں مرض لاحق ہو سکتا ہے اور تم اپنا نصف دین حمیراء سے حاصل کرو۔‘‘ [3]
لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں ایک حدیث لائے ہیں :
((دَخَلَ الْحَبْشَۃُ یَلْعَبُوْنَ، فَقَالَ لِي النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم : یَا حُمَیْرَاء، أَتُحِبِّیْنَ أَنْ تَنْظُرِيْ إِلَیْہِمْ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ۔)) [4]
’’حبشی کھیلنے کے لیے مسجد میں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’اے حمیرا! کیا تو ان کا کھیل دیکھنا پسند کرتی ہے؟ تو میں نے کہا: جی ہاں ۔‘‘
پھر لکھا:
’’اس روایت کی اسناد صحیح ہیں اور حمیرا کے متعلق میں نے اس حدیث کے علاوہ کوئی صحیح حدیث نہیں دیکھی۔‘‘
۸۔مُوَفقۃ:....توفیق دی گئی۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے القابات میں (موفقہ) بھی ہے اور یہ خطاب انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کیا۔
[1] سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۷، ص: ۱۶۸۔
[2] محمد بن ابوبکر بن ایوب ابو عبداللہ المعروف بابن القیم الجوزیہ دمشقی مشہور فقیہ تھے۔ مجتہد، مفسر اور اصولِ فقہ کے عالم حاذق تھے۔ ۶۹۱ھ میں پیدا ہوئے۔ متعدد علوم میں مہارت و رسوخ حاصل کیا۔ عبادت کے شیدائی اور دائمی تہجد گزارو شب زندہ دار تھے۔ کئی ایک بار آزمائشوں اور ابتلاؤں سے گزرے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے لائق ترین شاگرد ثابت ہوئے۔ ان کی مشہور تصانیف : زاد المعاد (سیرتِ رسول میں ) اور اعلام الموقعین (اُصولِ فقہ میں ) ہیں ۔ ۷۵۱ھ میں وفات پائی۔ ( البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر ، ج ۱۴، ص ۲۳۴۔ شذرات الذہب لابن العماد ، ج ۶، ص: ۱۶۷)
[3] المنار المنیف فی الصحیح والضعیف لابن قیم، ص: ۶۰، ۶۱۔
[4] اسے نسائی نے سنن کبریٰ ، ج ۵، ص ۳۰۷، حدیث: ۸۹۵۱ پر روایت کیا ہے۔ طحاوی نے مشکل الآثار کی ج:۱، ص: ۲۶۸، حدیث: ۲۹۲ سے روایت کیا۔ ابن القطان نے ’’احکام النظر ، ص: ۳۶۰ میں اسے صحیح کہا اور ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری ، ج۲، ص: ۴۴۴ میں اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا۔ امام مزی رحمہ اللہ نے لکھا : نسائی کی حدیث کے علاوہ ہر وہ حدیث جس میں ’’یا حمیرا‘‘ کے الفاظ ہیں وہ موضوع ہے۔ (الاجابۃ للزرکشی، ص: ۵۸)