کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 64
کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کی۔ مجھ سے مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘[1]
جب سیّدنا عبداللہ[2]بن عباس رضی ا للہ عنہما سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مرض الموت میں ان کے پاس گئے تو ان سے مخاطب ہو کر کہا: ’’آپ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بیویوں سے زیادہ محبوب تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف پاک باز عورتوں کو ہی پسند کرتے تھے۔‘‘ [3]
۵۔الصدیقۃ:....صدق و وفا کا پیکر۔
جناب مسروق رحمہ اللہ جب اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث روایت کرتے تو یوں کہتے: ’’مجھے یہ حدیث صدیقہ بنت صدیق ، حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبہ المبرأہ نے سنائی۔ ‘‘
[1] اس متکلم فیہ حدیث کو ابویعلٰی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔ مکمل رو ایت اس طرح ہے: ’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے نو انعامات ملے جو سوائے مریم بنت عمران کے اور کسی عورت کو نہیں ملے۔ وہ درج ذیل ہیں :
۱۔جبریل علیہ السلام اپنے ہاتھ میں میری تصویر لے کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ آپ ان سے شادی کر لیں ۔
۲۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مجھ کنواری سے شادی کی۔ میرے علاوہ اور کسی کنواری عورت سے شادی نہیں کی۔
۳۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا اور میں نے آپ کو اپنے گھر میں دفن کروایا۔
۴۔فرشتوں نے میرے گھر کو گھیر لیا۔
۵۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دوسری بیوی کے پاس ہوتے اور آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہو جاتی تو آپ کے اہل خانہ آپ سے جدا ہو جاتے ، لیکن جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لحاف میں ہوتی تو وحی آپ پر نازل ہوتی رہتی۔
۶۔میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور آپ کے سچے وفادار کی بیٹی ہوں ۔
۷۔میری براء ت آسمان سے نازل ہوئی۔
۸۔میں خود بھی طیبہ پیدا کی گئی ہوں اور طیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوں ۔
۹۔ مجھ سے مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ کیاگیا ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایۃ والنہایۃ ج ۲ ، ص ۵۶ پر لکھا ہے کہ اس روایت کے کچھ الفاظ صحیح ہیں اور اس کی سند امام مسلم کی شرط پر ہے۔ امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء کے ص ۱۴۱ ،ج۲ پر اس کی سند کو جید قرار دیا۔ علامہ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ج ۹ ، ص ۲۴۴ ‘‘ پر لکھا ہے کہ یہ روایت ابو یعلی لائے ہیں اور الفاظ بھی صحیح ہیں ، نیز انھوں نے کچھ الفاظ میں ردّ وبدل کیا ہے اور ابو یعلٰی کی سند میں مجہول راوی بھی ہے۔
[2] عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب کی کنیت ابو العباس ہے۔ قریشی اور ہاشمی ہیں ۔ جلیل القدر صحابی رسول اور ان کا لقب حِبر الامت اور فقیہ اُمت ہے۔ ترجمان القرآن بھی انھی کو کہا جاتا ہے۔ یہ ہجرتِ مدینہ سے تین سال پہلے پیدا ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی کہ ’’ اے اللہ! ان کو دین کی سمجھ اور کتاب اللہ کی تفسیر کا علم دے۔‘‘ ۶۸ یا ۷۰ ھ کو فوت ہوئے۔ (الاستیعاب، ج ۱، ص: ۲۸۴۔ الاصابۃ، ج۴ ، ص ۱۴۱)
[3] مسند احمد ج ۱ ، ص ۲۷۶ پر حدیث نمبر ۲۴۹۶ پر روایت کی ہے۔ابو یعلٰی نے ج ۵ ، ص ۵۷ حدیث نمبر ۲۶۴۸ پر اور ابن حبان نے ج ۱۶، ص ۴۱ پر حدیث نمبر ۷۱۰۸ سے اور طبرانی نے ج ۱۰، ص ۳۲۱ پر حدیث نمبر ۱۰۷۸۳ سے روایت کیا ہے۔