کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 63
۴۔الطیّبۃ:....پاک باز۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے گواہی دی کہ یہ ’’الطیبۃ‘‘پاک باز ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قصہ ٔافک کے متصل بعد فرمایا: ﴿وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُولَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ﴾ (النور: ۲۶) ’’اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں ۔ یہ لوگ اس سے بری کیے ہوئے ہیں جو وہ کہتے ہیں ، ان کے لیے بڑی بخشش اور باعزت روزی ہے۔‘‘ الشیخ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ضمن میں لکھا: ’’اس آیت کا اسلوب عام ہے۔ خاص واقعہ اس کے عموم پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ اس آیت کے سب سے بڑے مخاطب تمام انبیاء اور ان میں سے خصوصاً اولو العزم رسل اور ان میں سے ان کے اور ہمارے سردار اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ علی الاطلاق وہ تمام مخلوقات میں سب طیّبین سے افضل ترین طیب ہیں ، ان کے لیے صرف پاک باز عورتیں ہی مناسب تھیں تو اس بہتان کے ذریعے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات پر الزام لگانے کا اصل مقصد اور اصل نشانہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور یہی منافقین کا مقصد رذیل تھا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہونا ہی ان کی پاک بازی کی بہت بڑی دلیل ہے۔ چہ جائیکہ جو عظیم الشان فضائل و مراتب ان کے ہیں ، ان کے ہوتے ہوئے ایسا گھناؤنا الزام عقل سے بعید ہے۔ وہ تمام عورتوں سے زیادہ راست باز، سب خواتین سے زیادہ افضل، سب سے بڑی عالمہ ، سب سے زیادہ پاک بازاور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اللہ رب العالمین کے حبیب سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ہیں ۔‘‘ [1] سیّدہ عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا اپنے بارے میں خود بیان کرتی ہیں : ’’ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور آپ کے دوست کی بیٹی ہوں ۔ بلاشبہ میرا عذر آسمان سے نازل ہوا اور میں پیدا بھی طیبہ ہوئی ہوں ، پاک باز کے گھر میں پیدا ہوئی ہوں ، پاک باز نبی
[1] تیسیر الکریم الرحمٰن فی تفسیر الکلام المنان ، ص: ۳۵۲۔