کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 62
بن خطاب کے ساتھ( رضی اللہ عنہ )۔ ‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خصوصی محبت کا بخوبی علم و ادراک تھا۔ اگرچہ عہد نبوی میں اس دعویٰ کے دلائل بے شمار ہیں ، تاہم صرف ایک واقعہ بطورِ مثال پیش کیا جاتا ہے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب عراق کی فتح سے حاصل شدہ مالِ غنیمت میں ایک نفیس زیور آیا تو تقسیم غنائم کے وقت سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یوں مخاطب کیا:’’کیا تمھیں اس کی قیمت کا اندازہ ہے؟ ‘‘ سب نے بیک زبان لا علمی کا اظہار کیا اور نہ انھیں یہ معلوم تھا کہ اسے آپس میں کس طرح تقسیم کریں گے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’کیا تم مجھے اجازت دو گے کہ میں یہ ہار سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف بھیج دوں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ خصوصی محبت کرتے تھے۔‘‘ سب نے رضا مندی کا اظہار کیا تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہ قیمتی جڑاؤ ہار سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیش کر دیا۔ [1] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تمام امہات المؤمنین کے لیے دس ہزار سالانہ وظیفہ مقرر فرمایا تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے وظیفہ میں دو ہزار کا اضافہ کر دیا، اور کہنے لگے: ’’بے شک یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیوی ہیں ۔‘‘ [2] ۳۔المبرأۃ:....پاک دامن، عفیفہ، بریٔ الذمہ۔ یہ لقب انھیں قرآن کریم میں اس بہتان سے برأت نازل ہونے کے بعد ملا جو منافقین نے ان پر تھوپنا چاہا۔ گویا انھیں ساتویں آسمان کے اوپر عرش عظیم کے مالک رب اعظم نے ہر عیب و الزام و بہتان سے مبرّا قرار دیا۔ رضی اللہ عنہا و ارضاھا جب راوی حدیث اور مشہور تابعی مسروق رحمہ اللہ [3]ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رو ایت کرتے تو یوں کہا کرتے: ’’مجھے صدیقہ بنت صدیق، اللہ کے حبیب کی محبوبہ المبرأہ نے یہ حدیث سنائی۔‘‘ [4]
[1] اسے امام احمد نے اپنی تصنیف ’’ فی فضائل صحابہ ، ح: ۵۱؍ ۱۶۴۲‘‘ میں روایت کیا اور ابن راہویہ نے اپنی مسند ج ۲، ص ۱۹ میں روایت کیا۔ حاکم نے ج ۴ ، ص ۹ میں روایت کیا اور کہا: یہ حدیث شیخین کی شرط کے مطابق صحیح ہے، اگر ذکوان نامی راوی کا سماع ابوعمرو سے ثابت ہو۔ امام ذہبی نے ’’سیر اعلام النبلاء ج ۲ ، ص ۱۹۰ ‘‘ میں کہا یہ روایت مرسل ہے۔ [2] یہ محاملی نے ’’الامالی‘‘ ، ص: ۲۴۲ پر روایت کی۔ خرائطی نے ’’اعتلال القلوب، ص: ۲۵‘‘ پر اور حاکم نے ج۴ ، ص ۹ پر روایت کی اورکہا: یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح تو ہے لیکن ان دونوں نے اسے مطرف بن طریف کے ارسال کی وجہ سے روایت نہیں کیا۔ [3] مسروق بن اجدع بن مالک ابو عائشہ رحمہ اللہ کوفی مشہورامام، عالم، عابد، فقیہ اور زہد و ورع میں مقتدا تھے۔ جنگ قادسیہ میں شریک ہوئے ، ان کا ایک ہاتھ بھی کٹ گیا۔ ایک قول کے مطابق جنگ صفین کا بھی انھوں نے مشاہدہ کیا، لیکن اس میں شریک نہیں ہوئے۔ زیاد نے انھیں ایک علاقے کا والی مقرر کیا اور ۶۲ یا ۶۳ ھ میں فوت ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج۴ ، ص ۶۶۔ تہذیب التہذیب لابن حجر، ج۵ ، ص: ۴۱۶) [4] المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۸۹۔ ۲۹۰۔ مسند احمد: ۲۶۰۸۶۔