کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 61
تیسرا مبحث: ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے القاب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعدد القاب تھے جو اسلام میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ان کی شان و عظمت تکریم اور تعظیم و تقدیس پر دلالت کرتے ہیں ۔ ان میں سے چند القاب کا تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے: ۱۔ام المؤمنین:....یہ ان کا مشہور ترین لقب ہے، جو اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا کیا ہے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، اور اس کا فرمان سب سے زیادہ سچا ہے: ﴿ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ﴾ (الاحزاب: ۶) ’’یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھنے والا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔‘‘ یہ لقب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذاتی شرافت پر دلالت کرتاہے۔ اس شرف و منقبت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر ازواجِ مطہرات بھی شامل ہیں ، کیونکہ وہ سب مؤمنوں کی مائیں ہیں ۔ رضی اللّٰہ عنہن اجمعین ۲۔رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم کي حبیبہ:....یہ لقب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کو اپنی اضافی محبت عطا کرنے سے ملا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ: ((فَقَدْ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم : أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَیْکَ؟ قَالَ: عَائِشَۃٌ۔ فَقُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ؟ فَقَالَ: أَبُوْہَا۔ قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ)) [1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: لوگوں میں سے آپ کو سب سے زیادہ کس سے محبت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ سے۔ بقولِ راوی، میں نے کہا: مردوں میں سے؟ تو آپ نے فرمایا: ان کے والد کے ساتھ۔میں نے پوچھا:پھر کس سے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر[2]
[1] متفق علیہ: صحیح بخاری، ح: ۳۴۶۲۔ صحیح مسلم، ح: ۲۳۸۴۔ [2] عمربن خطاب بن نفیل ابو حفص رضی اللہ عنہ قرشی، عدوی ہیں ۔ اسلام میں ان کا لقب فاروق اور خلفائے راشدین میں یہ دوسرے خلیفہ ہیں ۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام میں سے سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد افضل ترین صحابی ہیں ۔ ان کا اسلام لانا مسلمانوں کے لیے کشادگی کا سبب بنا۔ یہ اوائل مہاجرین سے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے کافرو ں کے خلاف برپا تمام غزوات و سریات میں شامل رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو شام، عراق اور مصر کی فتوحات عطا کیں ۔ سب سے پہلے انھیں امیر المؤمنین کا لقب ملا۔ ۲۳ھ میں شہید ہوئے (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَ اَرْضَاہُ)۔ (الاصابۃ، ج۴ ، ص ۵۸۸۔ الغرر فی فضائل عمر للسیوطی)