کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 60
دوسرا مبحث:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی کنیت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس وقت اُم عبداللہ کی کنیت عطا کی جب انھوں نے اپنے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کنیت کی درخواست کی۔ آپ نے انھیں ان کی دلجوئی کی خاطر ان کی حقیقی بہن سیّدہ اسماء رضی اللہ عنہا [1] کے بیٹے عبداللہ کے نام پر یہ کنیت عطا کی۔
سیّدنا عروہ رحمہ اللہ [2] بیان کرتے ہیں کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
((یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کُلُّ صَوَاحِبِیْ لَہُنَّ کُنًی ، قَالَ: فَاکْتُنِيْ بابنکِک عَبْدَ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْر۔ یَعْنِی ابْنِ أُخْتِہَا۔ فَکَانَتْ تُدْعِیْ بِأُمِّ عَبْدَ اللّٰہِ حَتّٰی مَاتَتْ۔))[3]
’’اے اللہ کے رسول! میری تمام سہیلیوں کی کنیت ہے!! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تجھے تیرے بیٹے یعنی تیرے بھانجے عبداللہ بن زبی[4]کے نام کی کنیت دیتا ہوں ۔‘‘ پھر ان کو ان کی وفات تک ام عبداللہ کی کنیت سے ہی پکارا جاتا رہا۔‘‘
ایک قول یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ایک نوزائیدہ بچہ ضائع ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام عبداللہ رکھا اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کے نام پر اپنی کنیت ام عبداللہ رکھ لی۔ لیکن یہ بات ثابت نہیں اور پہلی رو ایت ہی زیادہ صحیح ہے۔ [5]
[1] یہ جلیل القدر صحابیہ اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا ہیں ۔ آپ سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی ا للہ عنہما کی والدہ ہیں ۔ بنو تیم قبیلہ سے ہیں اور آپ کا لقب ذات النطاقین ہے۔ مکہ مکرمہ ہی میں اوائل اسلام میں اسلام قبول فرمایا اور ۷۳ یا ۷۴ ھ میں انھوں نے وفات پائی۔
[2] اسے ابوداؤد، ابن ماجہ، احمد ، بیہقی نے رو ایت کیا اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابی داؤد میں اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
[3] یہ عروہ بن زبیر بن عوام ہیں ۔ انھیں ابو عبداللہ القرشی الاسدی کی کنیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ مدینہ منورہ کے فقہاء سبعہ میں سے ایک تھے۔ یہ ۲۳ھ کے لگ بھگ پیدا ہوئے اپنے وقت کے بہت بڑے عالم، بکثرت احادیث کے راوی، ثبت (ثقہ) اور مأمون (ضعف وغیرہ سے محفوظ) تھے۔ کسی فتنے میں شامل نہ ہوئے۔ یہ ۹۳ ھ یا اس کے بعد فوت ہوئے۔ (سیر أعلام النبلاء، ج۴ ، ص ۴۲۱۔ تہذیب التہذیب لابن حجر، ج ۴، ص: ۱۱۷۔)
[4] یہ عبداللہ بن زبیر بن عوام رضی ا للہ عنہما ہیں ۔ ان کی کنیت ابوبکر ہے۔ قریشی اور اسدی ہیں ۔ ان کا لقب امیر المؤمنین ہے۔ یہ عبادلہ (عبداللہ نام کے چار جلیل القدر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) میں سے ایک ہیں اور بہادر صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں مہاجرین کے گھر سب سے پہلے انہی کی ولادت با سعادت ہوئی۔ خلافت کے لیے ان کی بیعت کی گئی۔ ان کی اطاعت پر حجاز، یمن ، عراق اور خراسان کے لوگوں نے اجماع کیا اور ۷۳ھ میں فوت ہوئے۔ (الاستیعاب لابن عبدالبر ، ج۱، ص: ۲۳۷۔ الاصابۃ لابن حجر، ج ۴ ، ص: ۸۹)
[5] جلاء الافہام لابن القیم ، ص: ۲۴۱۔ فتح الباری، ج۷، ص: ۱۰۷۔ الاصابۃ: ۲؍۲۳۲۔ یہ دو نوں کتابیں ابن حجر رحمہ اللہ کی ہیں ۔