کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 56
نشانہ بنایا، یا تو وہ ظالم ان کے مقام و مرتبہ سے ناواقف تھے (اگرچہ ایسا محال ہے)یا وہ اپنے دلوں میں چھپی ہوئی خواہشات کی اتباع کرنے کے لیے، یا کسی ایسے شبہ کی بنیاد پر جو ان کے دل پر چھا گیا تھا، انھوں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مخالفت کی۔ پھر بہتان تراشوں کو حقیقت کا ادراک نہ ہو سکا یا ان کے کچھ اور مخفی مقاصد تھے جو انھیں لے ڈوبے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى﴾ (طٰہ: ۵۲)
’’کہا، ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں ہے، میرا رب نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔‘‘
وَ إِذَا أَ تَتْک مَذمَّتي من ناقصٍ فہي الشہادۃ لي بأني کاملُ
’’اور جب کسی کم عقل کی طرف سے تیرے پاس میری مذمت کی جائے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ میں کامل ہوں ۔‘‘
اس لیے ضروری تھا کہ جو لوگ اس ذاتِ عالی مقام یعنی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مقام و مرتبہ سے بے خبر تھے اور جو اس ذاتِ عالیہ کے فضائل و خصائص کے متلاشی تھے، ان کے سامنے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مفصل و مدلل تعارف رکھا جائے، تاکہ اللہ چاہے تو جاہل کی جہالت دور ہو جائے اور محققین و مبتدئین کو ان کی ذاتِ شریفہ کے متعلق سیر حاصل معلومات مل سکیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے امتیازی مقام و مرتبے کا یقین ہو جائے۔
اگرچہ وحی کے نزول کے بعد بہتان تراشوں کی بہتان تراشیاں بند ہو جانی چاہییں تھیں اور جن مختلف اغراض کے تحت ان کی ذات پر کیچڑ اُچھالا جا رہا تھا ، وحی الٰہی کے بعد اس سے توبہ کر لینی چاہیے تھی، پھر بھی جن سے احقاق حق کی کوشش میں کمی رہ گئی یا جو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حق کوپہچان کر بھی ان کی شان میں تنقیص یا ان کی قدر ومرتبت میں کمی کا خواہش مند رہ گیا تو اسے مکمل و مدلل معلومات دینا واجب ہے، تاکہ شبہات کے پیروکاروں کے وسوسے دُور ہو جائیں اور ان کے دلوں کے زنگ آلود تالے کھل جائیں اور انھیں یہ یقین ہو جائے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محرم خاص اور وہ رازدانِ نبوت ہیں کہ جن کے بستر پر وحی قرآنی متواتر نازل ہوتی رہی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہوتی تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے ساتھ ہوتی تھیں اور ایک ہی چھت کے نیچے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی منزل کو ترتیل کے ساتھ پڑھتے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کی گونج دار آواز سنتی تھیں اور دیگر اہل خانہ ان دونوں کے آس پاس شب و روز گزارتے اور ان سب پر اہل بیت نبوی کا نام بولا جاتا۔