کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 55
اس دین میں تنقید کا سب سے مختصر راستہ اس دین کے راویوں اور علماء و ائمہ پر تنقید ہے۔ خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ چہیتی بیوی کہ جس نے اس قدر احادیث روایت کیں جتنی کسی اور نے روایت نہ کیں ۔ امام ابو زرعہ رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں : ’’جب تم دیکھو کہ کوئی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی پر تنقید کر رہا ہے تو جان لو کہ وہ زندیق ہے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حق ہیں اور قرآن حق ہے اور ہم تک قرآن و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے ذریعے سے پہنچے ہیں ۔ فتنہ پرورلوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے گواہوں کو مجروح قرار دیں تاکہ وہ اس ناپاک سعی سے کتاب و سنت کو باطل ثابت کریں ۔ جبکہ یہ خو د ہی مجروحین اور زنادقہ ہیں ۔ ‘‘[1] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام اور تکمیل دین کے دوران آپ کی صحبت میں رہیں ۔ اس لیے جو علم و ایمان انھوں نے حاصل کیا وہ علم و ایمان اُنھیں حاصل نہ ہو سکا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ابتدائی زمانے میں آپ کے ساتھ رہیں ۔ تو اس خصوصیت کی وجہ سے یہ ان سے افضل ٹھہرتی ہیں ، کیونکہ اُمت نے جتنا فائدہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علم سے حاصل کیا اتنا فائدہ سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے علم سے حاصل نہیں کیا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا علم کے جس درجہ پر تھیں اس درجہ پر ان کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بیوی نہ تھی۔ ‘‘[2] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات پر طعن و تشنیع اصل میں سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات و مقام پر طعن ہے جو کہ باتفاق اُمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُمت میں سب سے افضل ترین شخص ہیں ۔ اور نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے بلکہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ بھی تھے۔ اس لیے اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے اگر منافقین اور رافضی اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان تراشیاں کرتے ہیں ۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ ان ظالموں کا ظلم رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر اس حد تک جا پہنچا کہ ان کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور ان کی رضا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے موافق نہ ہو سکی، پھر انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور آپ کی زوجہ محترمہ سے دشمنی شروع کر دی اور وہ آپ کے مددگاروں پر غصہ اُتارنے لگے۔ بلکہ معاملہ اس انتہا تک پہنچ گیا کہ انھوں نے اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات کو
[1] الکفایۃ للخطیب البغدادی، ص: ۴۹۔ تاریخ دمشق لابن عساکر، ج ۳۸، ص: ۳۲۔ [2] منہاج السنۃ لابن تیمیۃ ، ج ۴، ص ۳۰۱ تا ۳۰۴۔ مجموع الفتاویٰ لابن تیمیۃ، ج ۴ ، ص: ۳۹۳۔