کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 54
ان کے اور ہمارے سردار محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو کہ مطلق طور پر تمام مخلوقات سے افضل ہیں ۔ ان کی تمام ازواجِ مطہرات بھی پاک دامن طیبات ہیں ، لہٰذا اس نسبت سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عصمت و آبرو پر تہمت دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت و آبرو پر تہمت ہے۔ منافقوں کا اس خود ساختہ بہتان سے مقصود اوّل و آخر بھی یہی تھا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عصمت و عفت کی یہی دلیل کافی ہے کہ وہ افضل الانبیاء محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں اور منافقو ں کے اس بہتان سے بری ہیں ۔ پھر جب ان کے فضائل و خصائص کا علم ہو کہ وہ تمام عورتوں سے سچی جن کا لقب صدیقۃ النساء ٹھہرے، وہ تمام خواتین سے افضل، اعلم اور اطیب ہوں ، رب العالمین کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیوی بھی ہوں ، یہ تو بلاشبہ نورٌ علٰی نور ہے۔‘‘ [1]
چنانچہ سلف صالحین کو شروع سے ہی اس سازش کا ادراک تھا ، اسی لیے امام مالک رحمہ اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سب و شتم کرنے والوں کے متعلق کہا:
’’بلاشبہ یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر عیب لگانا چاہتے ہیں لیکن ان کو موقع نہیں ملتا، اسی لیے انھوں نے چارو ناچار آپ کے صحابہ کو عیب جوئی کا نشانہ بنایا۔ جیسے کہا جاتا ہے، نیک آدمی کو بدنام کرنے کا موقع نہ ملے تو اسے بُرا آدمی کہنا شروع کر دو تاکہ وہ اسی لقب سے مشہور ہو جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اصحاب اُمت میں سب سے بڑے صلحا تھے اور جو صفت آپ کے صحابہ کی ہو گی ، آپ کی ازواج مطہرات اس میں بالاولیٰ شامل ہوں گی۔‘‘ [2]
اسی طرح سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر طعن دراصل شریعت میں طعن ہے کیونکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی محافظہ تھیں ، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے بڑے بڑے رواۃ صحابہ میں شامل ہیں ۔ مزید برآں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی عمر میں خوب برکت ڈالی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تقریباً پچاس برس تک زندہ رہیں ۔ بے شمار لوگوں نے آپ سے علمی و دینی طور پر استفادہ کیا اور کثرت سے احادیث رسول حاصل کیں ۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت علم سیکھا اور آپ کے بعد پچاس سال تک زندہ رہیں ۔ بکثرت لو گوں نے ان سے علم شریعت حاصل کیا اور ان سے بے شمار احکام و آداب اسلام، روایت کیے۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ احکامِ شریعت کا ایک چوتھائی ان سے منقول ہے۔‘‘ [3]
[1] تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان، ص: ۳۵۲ از عبدالرحمن السعدی۔
[2] الصارم المسلول علی شاتم الرسول، لابن تیمیۃ، ص: ۵۸۰۔
[3] فتح الباری، لابن حجر، ج۷ ، ص: ۱۰۷۔