کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 51
گھڑیوں میں سے جمعہ کے دن ایک گھڑی کو منتخب کیا۔ سال بھر کے عشروں میں سے ماہ ذوالحجہ کا پہلا عشرہ اور ماہِ رمضان کا آخری عشرہ منتخب کیا۔
قارئین کرام! جب آپ مخلوقات کے درج بالا حالات و کیفیات پر غور کریں گے تو یقیناً آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ کائنات میں یہ اختیار اورتخصیص اور انتخاب اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، وحدانیت اور اس کی حکمت، علم اور قدرت کے کمال کی بہترین دلیل ہے، کہ بے شک وہی اللہ ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں جو اس کی مخلوق جیسی مخلوق تخلیق کرے اور اس کے اختیار جیسا اختیار اور اس کی تدبیر جیسی تدبیر کرے۔ چنانچہ اس اختیار، تدبیر اور تخصیص کا اس کائنات میں واضح اثر ہر کسی کے مشاہدے میں ہے جو اللہ رب العالمین کی ربوبیت کی سب سے عظیم دلیل اور اس کی وحدانیت اور اس کی کمال صفات اور اس کے رسولوں کے صدق کا سب سے بڑا گواہ ہے۔ [1]
اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے ، اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن انتخاب کی تکمیل میں آپ کے اصحاب، آپ کے اہل بیت اور آپ کی ازواجِ مطہرات کا انتخاب بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو تمام انبیاء کے اصحاب سے افضل اور آپ کے اہل بیت کو تمام انبیا کے اہل بیت سے بہترین اور آپ کی ازواج کو تمام انبیا کی ازواج سے افضل بنایا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات علم و عمل ، سلوک و اتباع، خلق و کردار اور حسب و نسب کے لحاظ سے دیگر تمام عورتوں سے افضل و احسن ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں شرف صحابیت کے پہلو بہ پہلو،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شرف زوجیت سے بھی نوازا۔ یہ علو درجات و علو منزلت ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آئی، اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو۔ اس کے باوجود وہ اس دین کی سربلندی کے لیے ہمیشہ سر گرم رہیں ، بلکہ وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر تنگی ومصیبت میں آپ کے ساتھ رہیں اور زندگی گزارنے کے مشکل ترین حالات میں بھی آپ کی مصاحبت پر صابر و شاکر رہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انھوں نے بھی ہر مصیبت و اذیت کو برداشت کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت الی اللہ کے نتیجے میں جن مصائب و مشکلات کا سامنا کرتے، تمام ازواج بھی آپ کے ہم قدم و ہم رکاب رہتیں ۔ ان پاک باز خواتین میں سے ہر ایک اپنے اپنے گھر میں مشعل راہ، رول ماڈل اور معلمہ ٔ ناصحہ تھی۔ کسی نے اپنی تعلیم کو حصولِ دنیا کا ذریعہ نہیں بنایا اور نہ کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث میں مال کی کثرت کی خواہش کی۔
[1] بحوالہ زاد المعاد لابن قیم، ج۱ ، ص: ۴۲۔