کتاب: سیرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا - صفحہ 458
شیعہ تھا۔ محدثین کی ایک جماعت نے اسے کذاب کہا اور کچھ محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے ۔‘‘[1]
نیز اس روایت کی سند میں ایک راوی کا یہ قول ہے:
’’اسد بن عبداللہ نے ان اہل علم سے روایت کی جن سے وہ ملا۔‘‘
تو یہ کون سے اہل علم تھے جنھوں نے یہ روایت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی اور ہمارے دین میں کب سے تاریخوں اور روایات کے لیے مجہول راویوں کا سہارا لیا جاتا ہے؟
(۳)محض اس روایت کی موجودگی کتب اہل سنت میں ان کے خلاف کسی قسم کی دلیل نہیں بنتی۔ کیونکہ:
الف: یہ روایت اہل سنت کی معتمد، مسند، امہات الکتب جیسے صحیحین اور سنن اربعہ وغیرہ جیسی مشہور کتابوں میں سے کسی کتاب میں نہیں ۔
ب:یہ روایت کتب تاریخ میں ہے وہ کتب جن میں ہر قسم کی خشک و تر، رطب و یابس ایندھن جمع کر لیا جاتا ہے۔ مصنف اس کی تحقیق نہیں کرتا۔
ج:یہ روایت سند کے ساتھ کچھ کتب تاریخ میں مروی ہے جیسے (تاریخ طبری) اور محدثین کا مشہور قاعدہ ہے کہ جو سند بیان کرتا ہے وہی دعویٰ کرتا ہے اور جو دعویٰ کرتا ہے دلیل بھی وہی لاتا ہے۔ تب اس کا ذمہ ختم ہوتا ہے۔
د:اہل سنت ایسی روایات پر خاموش نہیں رہتے بلکہ وہ ان پر جرح کرتے ہیں اور ان کا ضعف اور بودا پن واضح کرتے ہیں ۔
آلوسی[2] نے کہا: ’’شیعہ جو یہ کہتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود لوگوں کو قتل عثمان کی ترغیب دی اور کہتی تھی کہ تم اس لمبی داڑھی والے بے وقوف بوڑھے کو قتل کر دو۔ کیونکہ یہ مفسد ہے .... یہ بالکل کذب بیانی ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ۔ یہ ابن قتیبہ، ابن اعثم کوفی، اور سمساطی جیسے مشہور جھوٹوں اور مفتریوں کی روایت ہے۔‘‘[3]
[1] معجم الادباء لیاقوت حموی، ج ۶، ص: ۲۷۵۰۔
[2] محمود بن عبداللہ الحسینی ابو الثناء الآلوسی۔ شہاب الدین اس کا لقب ہے۔ ۱۲۱۷ ہجری میں پیدا ہوئے، اپنے وقت کے عظیم مفسر، محدث، ادیب اور بغداد میں مقلدین کے مشہور مفتی تھے۔ آستانہ (ترکی کے ایک شہر کا نام) گئے تو سلطان عبدالمجید عزت سے پیش آیا۔ ان کی تصنیفات میں سے ’’روح المعانی‘‘ اور ’’الاجوبۃ العراقیۃ و الاسئلۃ الایرانیۃ‘‘ زیادہ مشہور ہیں ۔ ان کے علاوہ بھی متعدد اہم کتابیں تصنیف کیں ۔ ۱۲۷۰ ہجری میں وفات پائی۔ (الاعلام للزرکلی، ج ۷، ص: ۱۷۶۔)
[3] روح المعانی للآلوسی، ج ۱۱، ص: ۱۹۲۔